مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
تاریخ نویسی،عمل تسوید سے بھی قدیم اس لئے خیال کی جاتی ہے کہ انسان نے لکھنے سے قبل اپنی تہذیب و تمدن خاص کر مذہبی اعمال وروایات کو اشکال کی صورت میں غاروں اور پتھروں پر کندہ اورمصورانہ تصاویر کی صورت میں پیش کرنا شروع کردیاتھا،میرے خیال میں تاریخ کو محفوظ کرنے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگیا تھا۔تاریخ مجموعہ ہوتی ہے عسکری وقار ودبدبہ،جغرافیائی وتزویراتی اہمیت،معاشرتی اقدار اور سیاسی مکروفریب کا۔بدقسمتی سے مذکور تمام میں سے،عسکری جابرانہ گرفت،سیاسی مکرو فریب سے چلتی اور سانس لیتی ریاستوں کی تاریخ کو ہی جاوداں سمجھا جاتا رہا۔پاکستان جیسے کثیر تہذیبی مدغم معاشرہ میں تاریخ نویسی اور بھی دقیق و ژولیدہ اس لئے ہو جاتی ہے کہ حکومتی عدم دلچسپی تاریخ نویسی کے دم توڑتے جسدِ خاکی کو خفتگانِ خاک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔اسی بنا پر بحثیت قوم ہم ابھی تک تاریخ کی اہمیت و مقصدیت سے نابلد ہیں۔
تاریخ تحقیق،تفتیش،تجسس،اساطیر الاولین،واقعات و مشاہدات کے بیان اور قلمبند کرنے کا نام ہے۔الغرض میری دانست میں تاریخ سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے کہ واقعات کب اور کیوں رونما ہوئے؟
سجاد اظہرکی”راول راج“کی تخلیق کے پس منظر میں ان کے صحافیانہ ذہن میں پیدا ہونے والے کئی ایسے سوالات تھے جس نے انہیں تفتیش کے پیرائے میں ڈھالتے ہوئے بحرِ تحقیق میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کیا۔”راول راج“ پڑھنے کے بعد میں اس استنباط پر پہنچا کہ وہ نا صرف تاریخ کے اس بحرِزخار سے ایسے ایسے لعل وگہر اور لولو مرجان نکال لائیں ہیں،جس نے قرطاس تاریخ وادب کے دامن کو تہذیب وثقافت کے موتیوں سے مالا مالا کردیا بلکہ نسل نو وآئندہ کو گنجینہ ہائے علم سے ایسے ایسے گوہر شب تاب سے سرفراز کردیا کہ وہ اس بار امانت سے اپنے ماضی پر فخر اور مستقبل پر نازاں وفرحاں ہونگے۔اور انہیں ہونا بھی چاہئے کہ اس نسل کو گھر بیٹھے بیٹھے سجاد اظہر نے اپنی شناخت سے روشناس کروادیا۔
راول راج دراصل راول پنڈی،اترپاتھا،سوانین تہذیب،پوٹھوہار ثقافت،لیموریا،بھرت ورش اور ملہورا کی قدیم آبادیوں کے نشان اور نشاندہی ہے جس نے ہمیں بتایا کہ انسان کے ابتدائی مسکن کا نشان اسی بستی میں کہیں تھا۔رگ وید کے مطابق کس طرح پانچ لاکھ سال قبل کوہ ہمالیہ کے اوپرکشمیر میں ایک جھیل تھی جب وہ پھٹ گئی تو اس سے سات دریا بہہ نکلے جن میں سندھو،ستدری،سرساوتی،پوسنی،اسکنی،وتاشا اور سوسوما(سواں) شامل تھے۔راول راج پڑھتے پڑھتے میرے لئے حیران کن بات یہ بھی تھی کہ سواں کے دونوں اطراف دو مربع میل کے علاقہ میں ایسے سکے اور فوسلز دریافت ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تہذیب لاکھوں سال قدیم ہے۔دو مربع میل ازمنہ قدیم میں کسی طور شہری بستی سے کم نہیں ہوسکتی،شہری بستی سے میری مراد کہ تمام سہولیات کی بہم فراہمی،عدل و انصاف کا معیار،نظامِ حکومت،تعلقات خارجہ اور معاشی معاشرتی نظریات شامل ہیں گویا مکمل ریاست کا تصور۔
سجاد اظہر اپنی تحقیق کی صداقت کے لئے بے پر کی نہیں اڑاتے بلکہ باقاعدہ حوالہ جات کی مدد لیتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ راول پنڈی کا حوالہ 5500قبل مسیح مصر کے بادشاہ مینس،سومیری بادشاہ لوگل زیگس،ناگ ہنسی،شہنشاہ فرویون،پانیتی،چانکیہ،راجا سانگل اور اسکندر اعظم سے ہوتا ہوا راول سے راول پنڈی بننے تک انہوں نے جیسے عرق ریزی کی تو میں چشم تخیل سے انہیں کبھی دریائے سواں کے ارد گرد بسنے والے وسنیکوں کے ساتھ تہہ دریا سے سونا نکالتے نیاریوں کے ساتھ دھوتی کرتا میں ملبوس،تو کبھی سواں کے قرب و جوار میں موجود قدرتی غاروں پر فرشی بستر پر آلتی پالتی مارے بے فکر خوش گپیوں میں مصروف،کہیں گندھارا تہذیب کے پہاڑوں میں موجود گوتم کے دیو مالائی سٹوپا میں بیٹھے بھگشوؤں کے ساتھ گیرو رنگ کے دو ان سلے کپڑے پہنے ہاتھ میں ”گڑوی“پکڑے بدھا کی تعلیمات و فلسفہ حیات کو سمجھتے ہوئے،کبھی گلے میں حائل موٹے کپڑے کا تھیلا اٹھائے ہندووٗں کے تین متبرک تیرتھ سید پور،ٹلہ جوگیاں،راج کٹاس میں ”بن کے پھراں جوگی“کے مصداق گھومتے پھرتے،یا پھرسید پور میں بقول اوپ ٹالا سنسکرت کی پہلی یونیورسٹی میں رام سیتا سے محوگفتگو اور ان کے مذہبی پرچار پر بحث کرتے ہوئے کنڈ میں کنڈلی مارے ہوئے(ایسا ہی ایک سیتا کنڈ تلمبہ کے نزدیک سدھنائی کے مقام پر موجود جس کے بارے میں بھی یہی داستان مشہور ہے کہ وہاں سیتا اور لچھمن کاقیام رہا اور رگ وید میں ان کی کرامت بھی بیان کی ہے کہ راوی بل کھاتا ہوا دریا ہے لیکن سدھنائی کے مقام پر قریب دس میل سیدھا بہتا ہے اس لئے اس علاقہ کو سدھنائی کہا جاتا ہے۔مجھے وہاں جانے کا جب اتفاق ہوا کہ بہت دکھ ہوا یہ دیکھ کر کہ وہاں ویرانی بال کھولے نوحہ کناں ہے اور کنڈ میں موجود ہزاروں سال پرانے برگد کے درخت ماضی کی داستان کے امین ہیں صد افسوس نے ہم پاکستانیوں نے ان درختوں کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا ہے جو سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ،ان درختوں کو کاٹ کر اصل میں تاریخ کی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے)دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ سجاد اظہر ایک صحافی،محقق،مصنف،شاعر ہی نہیں بلکہ قریہ قریہ،نگرنگر علم کی جستجو کا جھولا اٹھائے ایسا جوگی ہے جس نے عمر بھر کی تپسیا کے جوگ سے حاصل کردہ تحقیق کو خیرات کرنے کا عزمِ صمیم کر رکھا ہے کہ
وحشی کو جنوں سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
کسی ریاست کے لئے خارجہ امور کے فرائض منصبی ادا کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علاقہ کا کردار بین الاقوامی تجارت میں کیا ہے؟سجاد اظہر نے اگر سواں تہذیب کو قدیم ٹھہرایا ہے تو انہوں نے ثابت کرنے کی سعی کامل بھی کی ہے کہ جیسے ماہرین آثارِ قدیمہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وادی سندھ کے قدیم ترین شہروں مہرگڑھ،موہنجو داڑواور ہڑپہ کے تجارتی روابط میسوپوٹیمیا کے ساتھ رہے تھے،چونکہ 1930میں جرمن ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے وادی سواں سے ملنے والے فوسلز اور ہڈیوں کے تجزیہ کے بعد اسے پتھر کا ابتدائی زمانہ قرار دیا،سب جانتے ہیں کہ یہ علاقہ کھیتی باڑی اور زراعت پر مشتمل تھا تو قیاس یہ بھی کیا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ کپاس،گندم،گنا کی کاشت اسی علاقہ میں کی گئی،پھر کپاس سواں سے سندھ اور بعدازاں مصر پہنچی۔گویا بین الاقوامی روابط اور تجارت کاتعلق وادی سواں سے جاملتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے سواں کا پانی انگریز دورِحکومت تک اس قدر شفاف تھا کہ سرکار یہاں ریت سے سونا نکالنے والے نیاریوں کو باقاعدہ لائسنس کا اجرا کیا کرتی تھی۔نہ صرف یہ بلکہ انگریز فیملیز یہاں پکنک منانے کے لئے آیا کرتی تھیں۔
سجاد اظہر کے راول راج کے محاسن وستائش کی بات کی جائے تو انہوں نے قدیم تاریخ کو ہی قرطاس قلم نہیں کیا بلکہ تاریخ پاکستان اور تقسیمِ پاکستان کے واقعات کو بھی نوکِ قلم کرنے کی بھرپور،تحقیقی کوشش کی ہے تاکہ کسی قسم کی تشنگی باقی محسوس نہ ہو۔خاص کر بطور استاد میرے ذہن میں ایک عرصہ سے سوال تھا کہ جیسے استیاق قریشی سے لے کر اب تک بہت سے محققین کا خیال ہے کہ تقسیم کے وقت فسادات کا آغاز کہوٹہ کے قریب ایک گاؤں سے ہوا۔لیکن سجاد اظہر کی یہ بات سب پر بھاری ہے کہ 1926 کے واقعہ کو فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ایک سکہ بند محقق کی پہچان بھی یہ ہوتی ہے کہ وہ غیرجانبداری اختیار کرتے ہوئے واقعات وسانحات کو بیان کرنے کی جراٗت رکھتا ہو،بلاشبہ سجاد ایک جرات مند،دلیر تاریخ لکھنے والے ہیں۔مضمون کی طوالت کاڈر ہے وگرنہ میں سمجھتا ہوں کہ ”راول راج“کے جوگی سجاد اظہر کے لئے مکمل تحقیقی مقالہ لکھا جانا چاہئے۔تاکہ تشنگی باقی نہ رہے۔
Leave a Reply