Today ePaper
Rahbar e Kisan International

رباط دلنشیں !!

Articles , Snippets , / Tuesday, July 1st, 2025

rki.news

نازپروین
احساس

مئی کے مہینے میں افریقہ کے ملک مراکش جانے کا موقع ملا۔افریقہ جانے کا میرا یہ دوسرا موقع تھا۔اس سے پہلے کینیا نیروبی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔جس سفر نے مجھے افریقہ کے عشق میں مبتلا کر دیا تھا۔اور اب مراکش ۔۔ایک تاریخی اہمیت کا حامل مسلمان ملک۔۔لیکن سفر بے حد طویل۔۔پہلے دوحہ قطر جہاں دس گھنٹے کا قیام تھا اور پھر وہاں سے سپین بارسلونا جہاں مزید 15 گھنٹے کا قیام۔۔۔ وہاں سے کاسا بلانکا۔کیونکہ دوحہ قطر سے رباط کے لیے ڈائریکٹ فلائٹ نہیں تھی۔بہرحال ایک طویل سفر طے کر کے مراکش کے شہر کاسا بلانکا پہنچے۔چھوٹا سا ایئرپورٹ جہاں جدید سہولتیں کم ہی میسر تھیں۔ایئرپورٹ پر ہی احساس ہو گیا کہ یہاں پر انگلش نہیں بولی جاتی صرف عربی اور فرانسیسی زبان رائج ہے ۔مراکش سیاحوں کے لیے جنت ہے اس کا احساس ایئرپورٹ پر پوری دنیا سے آئے سیاحوں کو دیکھ کر ہوا ۔شوہر نامدار کی سپورٹس کانفرنس رباط میں تھی۔جو کاسا بلانکا سے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔گویا ابھی ہمارا سفر ختم نہیں ہوا تھا۔دل کو تسلی دی کہ منزل اب نزدیک ہی ہے۔ایئرپورٹ سے سامان لے کر باہر نکلے تو گاڑی ہمیں لینے کے لیے آئی ہوئی تھی۔عصر کا وقت تھا اور مسلسل ہوا چل رہی تھی ۔ہمارے میزبانوں نے ہمارا استقبال کیا سامان گاڑی میں رکھا اور رباط کی جانب روانہ ہو گئے ۔یہ دو گھنٹے کا سفر تھکان کی وجہ سے اونگھتے جاگتے گزارا۔باہر کے مناظر سے ایسا لگتا تھا جیسے ہم پوٹھوہار کے علاقے سے گزر رہے ہیں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت بڑی چار دیواری میں گھرے نظر آرہے تھے جن کے ساتھ رہائشی مکان بنے تھے۔۔لیکن اچانک منظر نامہ بدلا ۔رباط کا خوبصورت شہر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔قدیم اور جدید کا حسین امتزاج۔۔رباط کی خصوصیت کہ یہاں پر تمام درختوں کو کاٹ چھانٹ کر مختلف گول چوکور اور مخروطی شکل دے دی گئی تھی ۔جدید عمارتوں اور سڑکوں کے درمیان بھی ہرا بھرا سبزہ۔ہم تقریباً آٹھ بجے اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔کانفرنس کے شرکا تیار ہو کر ڈنر کے لیے بس میں بیٹھ رہے تھے ۔ہمیں بھی کہا گیا کہ دس منٹ میں آ جائیں ۔پہلے تو سوچا کہ شدید تھکاوٹ ہے 36 گھنٹے کا سفر تھا لہٰذا کمرے میں جا کر آرام کر لوں لیکن خیال آیا کہ اب ہوٹل تو پہنچ ہی گئے ہیں آرام بھی ہو جائے گا لہٰذا سامان رکھا فریش ہوئے اور دس منٹ بعد گاڑی میں بیٹھ کر ریسٹورنٹ روانہ ہو گئے جو اس ہوٹل کے نزدیک ہی تھا۔جو نہی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی اپنے فیصلے پر بے حد خوشی ہوئی۔یہ ریسٹورنٹ سمندر کے اندر بنا تھا ۔جس کے چاروں طرف شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جن سے مراکش کی جھلملاتی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ سمندر میں ڈولتی کشتیاں اور جہاز نظر آرہے تھے۔ایک سحر انگیز منظر تھا۔اور پھر کھانا بھی بے حد مزیدار۔سی فوڈ اور تازہ سلاد کا پلیٹر ساتھ میں تازہ اورنج جوس ۔۔کانفرنس کے بین الاقوامی شرکا اور ان کی مزیدار گپ شپ نے تازہ دم کر دیا۔۔اگلے دن ناشتے کے بعد ہوٹل کی بالکنی سے دیکھا تو سامنے نیل گوں سمندر نظر آیا۔رباط مراکش کا دارالحکومت ہے۔جس کی آبادی 18 لاکھ سے زیادہ ہے۔یہ بحر اوقیانوس کے ساحل پر دریائے ابو ریگریگ کے کنارے واقع ہے۔ہمارا ہوٹل سالے میں تھا جسے رباط کا جڑواں شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ جدید ترین شہر ہے ۔ہوٹل سے باہر نکلی اور اس نیلگوں دریا کی جانب رخ کیا۔راستے میں جدید ترین فلیٹس اور شاپنگ مالز تھے ۔صرف دس منٹ کی واک پر ساحل آگیا اور ابو ریگریگ کا نیل گوں پانی۔ اور ہر دم فرحت بخشتی ہوا۔۔۔یہاں پر سے کشتیاں سیاحوں کو دریا کے دوسرے کنارے پر لے جا رہی تھیں۔میں بھی اس کشتی میں بیٹھ گئی اور 10 ،15 منٹ میں دریا کے دوسرے کنارے اتر گئی اب میں رباط میں تھی ۔سالے اور رباط کو ملانے کے لیے جدید ترین پل بھی ہیں ۔اور یورپ کی طرز پر ٹرام بھی چلتی ہیں۔کشتی نے مجھے جہاں پر اتارا وہاں قدیم رباط جسے مدینہ بھی کہتے ہیں واقع ہے۔ فصیل کے اندر رباط کا قدیم شہر اپنی اصلی حالت میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔سیڑھیاں چڑھ کر ایک محراب نما دروازے سے قدیم رباط میں داخل ہو گئی ۔یوں لگا جیسے الف لیلہ کے کسی شہر میں داخل ہو گئی ہوں۔قدیم عمارتیں بازار مساجد لوگوں کی رہائش گاہیں ۔۔لگتا تھا جیسے وقت سینکڑوں سال پیچھے چلا گیا ہے۔رنگ برنگے چمڑے سے بنے اسٹول پرس جوتے ہاتھ سے بنے قالین قدیم عربی انداز کی لالٹینیں صراحیاں برتن ہاتھ کی کشیدہ کاری سے مزین خوبصورت عربی لباس سیاحوں کو اپنی جانب مائل کر رہے تھے۔یہاں کے لوگ اور دکاندار خوش اخلاق مسکراتے ہوئےنظر آئے ۔ایک اسلامی ملک جہاں 80 فیصد سے زائد خواتین حجابی ہیں لیکن معاشرہ کشادہ دل ہے اسی لیے مغربی سیاحوں کی یہاں پر بھر مار نظر آئی کہ وہ بلا خوف و خطر اپنے من پسند لباس میں ملبوس گھوم پھر رہے تھے تاریخی ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
مراکش کی نئی نسل بھی جدید طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہے مرد اور خواتین دونوں ہی ہر جگہ کام کرتے نظر آئے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں دن ہو یا رات بے خوف و خطر گھوم پھر سکتے ہیں ایک کشادہ دل محفوظ ماحول خوبصورت ساحل سمندر خوشگوار موسم لذیذ کھانے اسے سیاحوں کی جنت بناتے ہیں۔مراکش کے لوگ بے حد صفائی پسند ہیں ۔قدیم رباط ہو یا جدید شہر کہیں کوڑا کرکٹ کچرا ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملا۔مراکش بربر عربی اور یورپی ثقافت کے امتزاج کا حامل ملک ہے جس کا اثر اس کی طرز تعمیر میں بھی نظر آتا ہے۔یہاں کی مساجد میں کہیں بھی گول گنبد نہیں ہے۔مخروطی شکل کے مینار مساجد کی نشانی ہیں۔یہاں جگہ جگہ مساجد ہیں جن کے ساتھ النساء کا بورڈ آویزاں دیکھا جہاں اوپر جا کر خواتین کے لیے نماز کا اہتمام تھا۔قدیم رباط میں کھانے پینے کی دکانیں بھی بڑی دلچسپ تھیں ۔اوجھڑی کلیجی گردے کپورے بھنتے ہوئے دیکھے۔ایک دکان میں اونٹ کا پورا سر بھون کر تھال میں رکھا تھا جس سے گوشت اتار اتار کر شوارما اور برگر کے انداز میں پیش کیا جا رہا تھا۔پھلوں کی دکانیں بھی بڑی پرکشش تھیں۔مالٹے کیلے انار انگور انجیر سیب ناشپاتی کھجور سجے نظر آئے۔یہاں کے لیموں مالٹے کے سائز کے برابر تھے۔ہر جگہ تازہ پھلوں کا رس میسر تھا۔یہاں کے کھانے لذیذ تو تھے لیکن کسی بھی قسم کے مصالحے سے عاری۔۔۔یعنی ہمارے حساب سے بالکل پھیکے۔۔قدیم رباط یعنی مدینہ میں چلتے چلتے سمندر کے کنارے ایک قدیم قلعے میں داخل ہو گئے یہ بارہویں صدی کا قلعہ اڈیاس ہے ۔اس کے قریب ایک عجائب گھر بھی ہے جو ماضی کے بادشاہ کے محل میں واقع ہے ۔اس کے باہر بہت خوبصورت سبزہ زار تھا جہاں خوشبودار پھول اور پودے ہوا کو معطر کر رہے تھے ۔وہاں پر ایک تختی پر پڑھا کہ اس بادشاہ نے کوشش تھی کہ زمین پر جنت کی طرح کا باغ بنا لے۔۔اس سے تھوڑا آگے دریا کے اوپر ٹیرس پر قہوہ خانہ بنا تھاجہاں غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد میزوں کے گرد بیٹھی قہوے اور مراکش کی روایتی مٹھائیوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ویٹرز نے مراکش کا روایتی لباس پہن رکھا تھا ۔سر پر ترکی ٹوپی سے ملتی جلتی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ سمندر کی تازہ ہوا میں بیٹھ کر مراکش کا قہوہ پیا جارہا تھا۔میں نے بھی اس قہوے کا لطف اٹھایا ۔چائے دانی کا ڈھکن اٹھایا تو پودینے کے بڑے بڑے پتوں سے بھرا تھا جس کا ذائقہ اس لذیذ قہوے میں نمایاں تھا۔۔رات کو کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں مراکش کی حکومت کی جانب سے عشائیے کا اہتمام تھا ۔یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ مراکش کے لوگ میٹھے کے کتنے شوقین ہیں۔کھانے سے پہلے ہی ویٹر باری باری مختلف قسم کی مٹھائیاں پیش کرتے ۔تھوڑی دیر میں ہر میز پر ایک بڑا تھال ڈھکا ہوا رکھا گیا۔اس میں سیویوں اور خشک میوہ جات کی پرتوں میں چکن سجا تھا حیرت کی بات یہ کہ یہ ڈش بھی میٹھی تھی۔تھوڑی دیر کے بعد چاولوں کے تھال لائے گئے جو ہمارے کابلی پلاؤ سے ملتے جلتے تھے فرق صرف اتنا کہ اس میں بھی میٹھی کشمش اور خشک میوہ جات کی مقدار بہت زیادہ تھی ۔آخر میں سب کو آئس کریم پیش کی گئی۔ گویا آغاز سے اختتام تک میٹھا ہی میٹھا۔۔۔اس دورے کے دوران اپنے شوہر امجد عزیز ملک کے ہمراہ مراکش میں مقیم پاکستان کے سفیر جناب سید عادل گیلانی سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔جونہی سفارت خانے میں داخل ہوئے سبز ہلالی پرچم دیکھ کر دل سرشار ہو گیا۔ سید عادل گیلانی ایک سینیئر سفارت کار ہیں۔وہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے بھی کافی عرصہ وابستہ رہے۔ ہمارے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آئے۔اور مراکش کے بارے میں کافی دلچسپ معلومات بھی فراہم کیں۔انہوں نے بتایا کہ یہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زرعی مصنوعات پر ہے جبکہ فاسفیٹ بھی بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے۔یہاں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ قدامت پسند اور اسلامی شعائر کی پابندی کرتا ہے جب کہ نئی نسل مغربی معاشرے کی تقلید کرتی نظر آرہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مراکش اور پاکستان کے سفارتی تعلقات بہت مضبوط ہیں۔میں نے اپنا سفر نامہ انہیں پیش کیا۔میں ایک بین الاقوامی تنظیم انر وہیل سے بھی وابستہ ہوں۔ جس کے 104 سے زائد ممالک میں دفاتر ہیں ۔رباط میں قائم انر وہیل کی ممبران سے پاکستان سے ہی رابطہ کر چکی تھی۔وہ بھی ملنے کے لیے آئیں ۔دلچسپ بات کہ انہیں انگلش نہیں آتی تھی اور مجھے عربی اور فرنچ۔۔گویا زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
لیکن پھر بھی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اور اشاروں کے ساتھ کام چلایا۔انہوں نے مجھے رباط کے شہر کی سیر کروائی ۔یہ تینوں خواتین عمر رسیدہ اور کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ تھیں۔ان کی صدر ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پینٹر بھی تھیں۔ ہم نے آپس میں تحائف کا تبادلہ کیا انہیں میری سواتی کڑھائی سے مزین شالیں بے حد پسند آئیں اور میرا پاکستانی شلوار قمیض بھی۔ان کے بچے یورپ اور امریکہ میں سیٹل تھے انہوں نے بتایا کہ نئی نسل مراکش میں نہیں رہنا چاہتی چونکہ یورپ یہاں سے بہت نزدیک ہے اس لیے وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے جاتے ہیں اور پھر وہیں بس جاتے ہیں۔جدید رباط یورپ کے کسی شہر کی مانند ہے ۔بلند و بالا عمارتیں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام اور صفائی کی بہترین صورتحال ۔گھنے سبز درختوں کی قطاریں۔جن کے نیچے جا بجا بینچ پڑے ہوئے جہاں سر شام لوگ اپنی فیملیز اور دوستوں کے ہمراہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔جدید کیفے نئی نسل کے پسندیدہ مقامات میں سے ہیں۔قدیم اور جدید کا حسین امتزاج رباط کا یہ شہر اپنے حسن خوش اخلاق لوگوں نیلگوں سمندر قدیم عمارتوں اور خوشگوار ہواؤں میں جھومتے جھامتے درختوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے میری یادوں کا حصہ بن گیا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International