Today ePaper
Rahbar e Kisan International

رد یا ردعمل

Articles , Snippets , / Sunday, April 6th, 2025

rki.news

مراد علی شاہدؔدوحہ قطر
جذبہ روزِازل سے ہی اظہار کا محتاج رہا ہے اگرچہ بعض اہل فکر وفلسفہ کا خیال یہ بھی ہے کہ اظہار اشیا کی قدروقیمت کھو دیتا ہے۔لیکن میرا ان احباب کو جواب ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک کے وسائل میں زیرزمین سونا پڑا ہوا ہوتو کیا اس کی قدر سے ملک مستفید ہو سکتا ہے،کبھی بھی نہیں۔اگر ریاست اس چھپے خزانے کونکال کر استعمال کرکے اپنی معاشی ضروریات کو پوری کرتے ہوئے استحکام حاصل کر لیتی ہے تو اس وسائل کا فائدہ ہوگا۔اس لئے اظہار کے ذرائع جتنے مضبوط ہوں گے اتنا ہی دوسروں کے دل کو قائل،مائل اور گھائل کرنے میں کامیاب و کامران ہوں گے۔شائد بزرگ اسی تناظر میں کہہ گئے ہیں کہ پہلے سوچو پھر بولو کہ اظہار سے قبل آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا مدمقابل سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کی استعداد رکھتا بھی ہے کہ نہیں،یا آپ درو دیوار سے مخاطب ہیں۔
کبھی کبھار اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اپنے خیالات ونظریات کو کتنے واضح،وضاحت ارو بلاغت کے ساتھ بیان کرتے ہو۔آپ کی فکرودانش میں کتنا عمیق پن ہے کہ سامنے والا صرف سن رہا ہے،آپ کو رد کر رہا ہے یا ردعمل دینے کے لئے لیکن سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔اگر آپ کا مدمقابل محض سننے یا سنی ان سنی کرنے پر اکتفا کررہا ہے یا ردعمل دینے کے لئے تو سمجھ جائیں کہ آپ پتھروں سے سر ٹکرا رہے ہیں،اس لئے کہ مدمقابل اپنے نقطہ نظر پر منجمد ہے۔گویا زمین جنبد نہ جنبد گل محمدوالا معاملہ ہے۔وہ اپنی ذات کے حصار یا سوچ کے دائرے سے نکلنے کو تیار نہیں۔وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو اس کی انا کو ٹھیس پہنچے گیاور یہی ”میں“ اسے تکبرو ہٹ دھرمی کے نام نہاد اصولوں کے جالے میں ایسے جکڑے رکھتا ہے جیسے مکڑی اپنے بنائے جال میں خود ہی مقید رہتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ اگر میں اس جال سے باہر نکل گئی تو میری دنیا ختم ہو جائے گی حالانکہ دنیا اس جالے کے باہرسے شروع ہوتی ہے۔آپ اگر ایسے انسان کے ساتھ بحث وتکرار اور تسلیم ورضا کی سعی کرتے ہیں تو آپ اپنا وقت،طاقت اور فکر کوضائع کر رہے ہیں۔انہیں اپنی ذات کے حصار میں مقید رہنے دیں اپنا راستہ بدلیں اور نئی دنیا کی کھوج میں نکل جائیں۔
ہیلی میرن نے ایک بار کہا تھا کہ ”کسی کے ساتھ بحث کرنے سے قبل آپ اپنے آپ سے پوچھیں کیا وہ شخص ذہنی طور پر اتنا بالغ بھی ہے کہ کسی مختلف نقطہ نظر کے تصور کو سمجھ سکے۔اگر نہیں تو دلیل سے قائل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں آپ اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں“
اگر آپ کی شخصیت ایسا کرنے سے قاصر ہے تو سمجھ لیں کہ آپ بھی نطشے کی طرح زندگی کے آخری ایام میں نفسیاتی یا ذہنی مریض بن کر گزار رہے ہیں جو انہوں نے اپنی آخری کتاب Ecco Homo کے آخری جملہ کے طور پر لکھے
”کیا میری بات سمجھ لی گئی“
اگر آپ کسی کو دلیل سے قائل نہیں کر سکتے تو ایسے افراد سے بآواز بلند ارد گرد کے ماحول کو انتشار میں مبتلا سے بہتر ہے کہ اپنی دلیل و فرنود کو سنبھال کے رکھیں ہم خیال احباب اور سمجھنے والوں کو قائل کرنے کے کام آئے گی۔مولانا روم اسی لئے فرماتے ہیں
”کسی کو قائل کرنے کے لئے شور کی نہیں دلیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ پھول بادلوں کے گرجنے سے نہیں برسنے سے کھلتے ہیں“
گویا جب بھی آپ کے مدمقابل آپ کے نظریات وافکار کو رد کرتا ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں کہ آپ خامشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے خود کو الگ کر لیں یا خود ہی شکست تسلیم کر لیں۔سیانے کہتے ہیں کہ دو قدم پیچھے ہٹنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ نے ہار تسلیم کر لی ہے بلکہ آپ بھر پور حملہ کے لئے تیار ہو گئے ہیں،ویسے ہی جیسے شیر جب اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے تو دو قدم پیچھے ہٹ کر بھر پور حملہ کرتا ہے اور شکار سمجھتا ہے کہ شائد شیر ڈر کے پیچھے جا رہا ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمیشہ صحت مند بحث کریں بے مقصد نہیں،صحت مند بحث ہمیشہ آپ ایسے لوگوں سے کرتے ہیں کو بات چیت کئے اپنے اذہان کو کھلے رکھتے ہیں،دلیل پر قائم رائے کو تسلیم کے لئے گنجائش رکھتے ہیں،کھلے ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں ضرورت ہو اتفاق وگرنہ مناسب انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر رد کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔روشن خیال ہوتے ہیں کہ اگر اتفاق رائے نہ بھی ہو تو اپنی آواز کو بلند نہیں کرتے بلکہ دھیرے سے اپنا موقف ارو استدلا بیان کر دیتے ہیں۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو ایک سی ایک دلیل بھی اس کی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتی۔وہ اپنے حصار سے کبھی نہیں نکلے گا گویا ایسے شخص سے بحث کر کے آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں پتھوں سے سر ٹکرا رہے ہیں،دیواروں سے باتیں کر رہے ہیں۔بلکہ میں تو کبھی کبھار از راہ تفنن کہتا ہوں کہ بے وقوف سے راز کی بات کرنا حماقت ہے دیوار سے کر لیں آپ محسوس کریں گے کہ جیسے دیوار آپ کو مشورہ کا جواب دے رہی ہے۔
اپنی ہی ذات کے حصار میں مقیدشخص کو ایک سو ایک دلیل بھی اس لئے قائل نہیں کر سکتی کہ وہ آپ کی ہر دلیل کو رد یا رد عمل کے لئے تیار ہے،وہ آپ کے خیال سے انحراف کرے گا،آپ کے الفاظ آپ کو ہی موڑ دے گا۔اس لئے نہیں کہ آپ غلط ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایسا دوسرا کوئی رخ دیکھنے کو تیار ہی نہیں جو اس کے نظریات و منشا کے خلاف ہو بھلے وہی سچ ہے۔کہتے ہیں کہ عقل مند ایک دلیل سے بھی قائل ہو سکتا ہے جبکہ جاہل ایک سو ایک دلیل کو بھی رد کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔لہذا میرا مشورہ یہ ہوگا کہ آپ کا ذہنی سکون اس شخص سے بیش قیمت ہے جو آپ کو رد یا رد عمل دینے کو ہمہ وقت تیار ہو۔لہذا رد یا مسترد ہونے سے بہتر کہ اپنی شکست تسلیم کرلیں دو قدم پیچھے ہٹ جائیں بھرپور حملی کے لئے تیار ہو جائیں۔ایک اور دنیا آپ کی منتظر ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International