(تحریر احسن انصاری)
اسلام میں زکوٰۃ، فدیہ اور فطرانہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مالی عبادات نہ صرف فرد کی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود اور مساوات کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ عبادات امیر اور غریب کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہیں۔ رمضان المبارک میں ان مالی عبادات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس مقدس مہینے میں عبادات کا اجر کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس مہینے میں دل نرم ہو جاتے ہیں اور لوگ زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے۔ یہ ایک مالی عبادت ہے جو مسلمانوں کو اپنی کمائی کا ایک مقررہ حصہ مستحق افراد کو دینے کا حکم دیتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے دولت کی گردش قائم رہتی ہے اور یہ چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہتی۔ قرآن و حدیث میں زکوٰۃ کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے تاکہ معاشی ناہمواری کا خاتمہ ہو اور مستحق افراد کی مدد کی جا سکے۔ زکوٰۃ نہ دینے والا شخص اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس پر سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ زکوٰۃ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہو یعنی جس کے پاس مقررہ مقدار میں مال یا سونا چاندی ہو۔ عام طور پر سونے کا نصاب 7.5 تولہ اور چاندی کا نصاب 52.5 تولہ مقرر ہے۔ سال مکمل ہونے پر اگر مال نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس کا 2.5% بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوتا ہے۔ زکوٰۃ ان افراد کو دی جا سکتی ہے جو مالی طور پر کمزور ہوں، جیسے غریب اور مساکین، یتیم بچے، بیوہ خواتین، قرضدار افراد اور مسافر جو راستے میں مالی مشکلات کا شکار ہوں۔
قرآن مجید میں زکوٰۃ کا ذکر 32 مقامات پر آیا ہے۔ ان آیات میں زکوٰۃ کی اہمیت، اس کے فوائد، اور ان لوگوں کے لیے سخت وعید بیان کی گئی ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے, “اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو” (البقرہ: 43) اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کو نماز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جو اس کی عظمت اور دین میں اس کے بلند مقام کو ظاہر کرتا ہے.
فدیہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی دائمی بیماری، بڑھاپے یا کسی اور معذوری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہوں اور آئندہ بھی روزے کی قضا ممکن نہ ہو۔ ایسے افراد ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے پابند ہوتے ہیں۔ فدیہ کی مقدار وہی ہوتی ہے جو فطرانے کی مقدار کے برابر مقرر کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص بعد میں صحت یاب ہو جائے اور روزے رکھنے کے قابل ہو جائے تو اسے فدیہ کے بجائے روزے قضا کرنے چاہئیں. فطرانہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی عید الفطر سے پہلے ضروری ہے تاکہ غریب افراد بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ فطرانے کی مقدار بنیادی غذائی اجناس جیسے گندم, جو, کھجور,کشمش کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ اگر نقد رقم میں دیا جائے تو اس کا تعین مقامی اشیاء کی قیمت کے مطابق کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا, “روزہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک فطرانہ ادا نہ کیا جائے” (ابن ماجہ، حدیث: 1827) اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ فطرانے کی ادائیگی روزے کی قبولیت کے لیے ضروری ہے۔ یہ مالی عبادات غریب اور نادار افراد کی مدد کرتی ہیں اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ مال کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور بخل سے نجات دلاتی ہے۔ جب مالدار افراد زکوٰۃ اور فطرانہ ادا کرتے ہیں تو پورے معاشرے میں خوشحالی آتی ہے۔
رمضان میں زکوٰۃ، فدیہ اور فطرانہ دینے کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں ایک نیکی کا اجر ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ رحمت، مغفرت اور برکت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر خاص کرم فرماتا ہے۔ جو لوگ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، اللہ انہیں بے شمار برکتوں سے نوازتا ہے۔
زکوٰۃ، فدیہ اور فطرانہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مالی عبادات ہیں، جو سماجی انصاف، غربت کے خاتمے اور فلاح و بہبود کے لیے ادا کی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک میں ان کی ادائیگی کی فضیلت مزید بڑھ جاتی ہے اور یہ اعمال اللہ کی رضا اور بے شمار برکات کا سبب بنتے ہیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے مال میں سے مستحق افراد کا حق ادا کرے تاکہ اسلامی معاشرہ حقیقی معنوں میں عدل و انصاف اور مساوات کا گہوارہ بن سکے۔
Leave a Reply