تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین !زندگی کے رواں دواں نظام میں بعض ہستیاں اپنی محنت اورجانفشانی سے اپنانام روشن کر لیتی ہیں۔ان کی درخشانی سے گوشہ کائنات میں اجالا ہوتا ہے۔ محنت میں عظمت ہے۔عظیم لوگ تو خون جگر سے ہیرے تراش کر دیار محنت میں ناموری حاصل کر لیتے ہیں۔انہی میں ایک نام ”روبینہ ناز“ہے۔جو سرزمین کشمیر ضلع باغ کے سرسبز و شاداب نظاروں میں پیدا ہوئیں اور والدین کی تربیت اور اساتذہ کرام کی محنت سے ایک بہترین ادیب٬کالم نگار٬ اور سماجی کارکن بن کر اپنا تعارف بن گئیں۔اب تو ماشاءاللہ جرنلسٹ میڈیا کونسل پاکستان ہزارہ ڈویژن و کشمیر سے سیکریٹری اطلاعات مقرر ہو گئی ہیں۔ایک جذبہ اور شوق سے اپنی زندگی کے سفر میں”نیا زمانہ٬نئے صبح و شام پیدا کر“
کے لیے ہمہ کوشاں رہتی ہیں۔ایک نظر ان کی زندگی کے حالات و واقعات پر ڈالیں تو محنت کی لازوال داستان کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ تنظیمی٬صحافتی اور سماجی خدمات کے آئینہ میں ایک نمایاں کارکردگی نظر آتی ہے۔اس کی تفصیل جو محترم میاں محمد یوسف صاحب نے مہیا فرمائی۔ اس کے مطابق زندگی سراپا محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے
ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سانجھی تہذیب گوجری زبان وادب جموں وکشمیر (شعبہ خواتین)
بانی چیرپرسن لائف ویلفیر سوسائٹی (رجسٹرڈ) آزادکشمیر
سابق جنرل سیکرٹری آزادجموں وکشمیر یونین آف کالمسٹس
سپیشل رپورٹرروزنامہ جنت نظیر ضلع باغ جنرل سیکرٹری وویمن ونگ پاکستان پروفشینل یونین آف جرنلسٹ آزادکشمیر
ممبر خدیجہ زرین خان فاونڈیشن۔۔۔آزادکشمیر
صدر وویمن ونگ پاکستان پروفیشنل یونین آف جرنلسٹ آزادکشمیر
سیکرٹری نشرواشاعت جرنلسٹ میڈیا کونسل پاکستان
سابق نائب صدر ڈیجٹیل کلب باغ
سابق سیکرٹری اطلاعات جموں کشمیر یونین آف جرنلسٹ باغ آزادکشمیر
سابق پروجیکٹ مینجر پریس فارپیس فاونڈیشن یو کے آزادکشمیر
ان کا تعلق کشمیری قوم خواجہ سے ہے اور سکونت ضلع باغ آزاد کشمیر
ابتدائی تعیلم پاکستان ائیر فورس سے حاصل کی اور وویمن ایسوسی ایشن پشاور پاکستان سے
تدریسی کورس و صحافتی کورس کئے
پشاور بڈھ بیر سکول اینڈ کالج اسلامیہ سکول اینڈ کالج اور ایمز سکول اینڈ کالج میں درس وتدریس سے پانچ سال وابسطہ رہیں
لکھنے کا سلسلہ 24سال سے جاری ہے
پہلا کالم ۔۔۔۔روزنامہ مشرق پشاور اور روزنامہ آج پشاور سے شاہع ہوئے اور 2006 تک یہ سلسلہ جاری رہا
آزادکشمیر آمد پر بھی تدریسی عمل جاری رہا پرائیویٹ سکول چلایا مگر حالات کے پیش نظر خیر آباد کہ کر خدمت انسانیت کی طرف راغب ہوئیں۔زندگی کو بوجھ نہ سمجھا بلکہ ذمہ داری نبھائی۔اور کمربستہ رہتے ہوۓ عزم سے
2009 میں پریس فارپیس میں بطور رضاکار شامل ہوئیں اس دوران پریس فارپیس کی کواڈنیٹر رہیں ۔ضلع باغ اور مظفر آباد میں پریس فارپیس نے سمینار ورکشاپس اور دیگر پروگرامات کرواے پریس فارپیس انسانی حقوق امن اور ماحولیات پہ کام کررہی تھی پریس فارپیس کے بانی ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ ظفر اقبال نے باغ میں پریس فارپیس کے پلیٹ فارم سے کام کامکمل آغاز 2012 سے شروع کیا جس میں خواتین کی ہنرمندی پر فوکس رکھا ضلع باغ کی تین یونین کونسلز کے دور دراز علاقوں میں موبائل سنٹر چلائے جس میں پہلی بار گرلز وویمن ووکشنل سنٹر کا آغاز ناڑ شیر علی خان سے کیا گیا اور آغاز میں ہی کامیابی ملی اور یہ سلسلہ بڑھتا رہا جو 2022 میں اختتام ہوا۔
پریس فارپیس فاونڈیشن میں بطور پروجیکٹ مینجر کام کیا جس میں ووکیشنل سینٹر کے علاوہ چیرٹی شاپ کتابوں کی اشاعت اور دیگر اداروں مثلا شعبہ زراعت میڈیکل فرسٹ ایڈ الشفا۶ آئی ٹرسٹ کے تعاون سے مختلف جگہوں میں آ ئی کمیپ لگوانا Kiir کے ساتھ کمیونٹی کو ورکشاپ کروانا ،سکالر شپ کا آغاز 2021 سے جاری ہے
اس کے علاوہ ضلع باغ میں ایوارڈ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں نامور شخصیات کو علمی ادبی اور خدمات پر ایوارڈ دیئے گئے
اسی دوران باغ انتظامیہ سے بہترین رابطہ کاری کا سلسلہ جاری ہے جن میں ڈی سی اے سی ایس ایس پی ڈی ایس پی ڈی ایچ او ایم ایس اور دیگر کالج یونیورسٹی کے اعلی افسران سے رابطہ کاری جاری ہے
16 سال سے سوشل سیکٹر سے وابستہ ہیں ناڑ شیر علی خان میں 2015 میں NRSP میں تنظیم بحالی پروجیکٹ
اور 2022 میں نیک انسان کے ذریعے لفٹ کے لیے ایک واٹر روپ لاگت 5لاکھ روپے۔
ناڑ شیر علی خان محلہ ہستانی خواجگان۔۔۔۔مسلم ہینڈ کے تعاون سے واٹر ٹینک لاکت تقریبا پانچ لاکھ روپے۔
لائف ویلفیر سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف پروگرام کا تسلسل سا جاری ہے۔
لائف ویلفیر سوسائٹی خواتین کی ہنرمندی معذور افراد اور تعیلم صحت کے لیے خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔گویا ایک تسلسل موجود ہے۔
ان کوپریس فارپیس فاونڈیشن نے
لیڈر شپ ایوارڈ دیا جہاد زیرو تھلسمیا ایوارڈ بھی حاصل کیا اور سانجھی تہذیب گوجری زبان وادب جموں وکشمیر کی جانب سے
کشمیری ثقافت ایوارڈ حاصل کیا۔
ادب سماج انسانیت فورم نے بھی انہیں سماجی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیا الغرض معاشرہ ایسی باہمت بہادر انسانیت کا درد رکھنے والی خواتین کو صنف نازک کہتا ہے جبکہ یہ صنف کامل ہے کیونکہ اگر تاریخ دیکھیں تو ہماری خواتین مردوں سے زیادہ دلیر گزری ہیں
۔گویا علمی و صحافتی زندگی کے دریچوں میں ایک محنت بھری سرگزشت طویل سفر موجود ہے۔اس بات میں کچھ عجب نہیں کہ جو لوگ محنت کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے۔اور عظمت کے آبگینے مقدر بنتے ہیں۔ اور اس سفر میں بہت قربانیاں بھی دینی پڑیں۔ثابت قدمی کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا
Leave a Reply