Today ePaper
Rahbar e Kisan International

روس۔یوکرین جنگ اورامریکی امدادکی امداد کی حیثیت

Articles , Snippets , / Sunday, February 16th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

روس اور یوکرین جنگ کافی عرصےسے جاری ہےاور ابھی تک رکنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔میڈیا ذرائع کے مطابق حال ہی میں روس یوکرین جنگ بندی کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔اس جنگ کے خاتمے کے لیےڈونلڈ ٹرمپ نے خصوصی کردار ادا کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نےروسی صدر کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے مذاکرات کی میز پر نہ آیا تو اس کے خلاف بھی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ٹرمپ کے مطابق روسی صدرپیوٹن بھی جنگ بندی کے لیےآمادہ ہو گئے ہیں۔بات چیت چل رہی تھی لیکن توقعات پوری نہیں ہوئیں اور جنگ اب بھی جاری ہے۔یہ اور بات ہے کہ امریکہ نے یوکرین کی امداد بھی بند کر دی ہےاوراس میں فوجی امداد بھی شامل ہے۔روس ایک بڑی قوت ہےاور یوکرین جیسی ریاست کوآسانی سے شکست دے سکتی ہے۔یوکرین کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ وہ اکیلا روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔امریکہ کی امداد بند ہونے کی وجہ سےیوکرینی صدرولادی میرزیلنسکی خوف کا شکار ہو گئے ہیں اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی امداد کے بغیر روس سے جنگ لڑنا ناممکن ہے۔امریکی فوجی امداد کے بغیر یوکرین کچھ نہیں کر سکتا اور انجام یوکرین کی تباہی ہوگا۔یوکرینی صدر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ یوکرین اور روس جنگ کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے تو بعدکی صورتحال سے نپٹنا بھی یوکرین کے لیے مشکل ہوگا۔اس بات کا بھی دعوی کیا گیا ہے کہ روسی صدر پیوٹن جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ وہ عارضی جنگ بندی چاہتے ہیں تاکہ وہ کچھ وقفہ حاصل کر سکیں۔اس وقفے کا مقصد یہ ہے کہ وہ مزید فوجی تربیت کر سکیں تاکہ دوبارہ منظم طور پر یوکرین کے ساتھ جنگ لڑی جا سکے۔جرمنی کے صدر فرانک والٹر شٹاٹن مائر نے بھی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ مروجہ اصولوں،شراکت داری اور پروان چڑھنے والے اعتماد کا کوئی خیال نہیں رکھتی.یوکرین کی صرف امریکہ نہیں بلکہ کچھ یورپی ممالک اور دیگر ممالک بھی امداد کر رہے تھےاور یہی مدد یوکرین کو تباہ ہونے سے بچا رہی تھی۔اب اگر صرف امریکہ ہی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو یورپی یونین یا دیگر ممالک کی امداد بھی یوکرین کی سلامتی برقرار نہیں رکھ سکے گی۔اس بات کا یوکرین اور پوری دنیا کو اچھی طرح احساس ہے کہ امریکہ کی امداد نےروس کےآگے رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔
امریکہ کےیورپ کے ساتھ بھی تعلقات خطرہ سے دوچار ہو چکے ہیں۔جس طرح ٹرمپ نے یورپی یونین کی مصنوعات پرٹیرف عائدکرنے کا اعلان کیا،جوابی طور پر یورپ نےبھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔آسانی سےاندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں اور ان دراڑوں کو وسیع ہونے سےبچانے کے لیے یورپ بڑی کوشش کرے گا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اکیلا امریکہ پوری دنیا کا نظام کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟اس کا فوری جواب یہی دیاجا سکتا ہے کہ امریکہ چند ممالک پر توقبضہ یاکنٹرول کر سکتا ہے،پوری دنیا پر کنٹرول کرنا اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔یورپ کی کوشش یہی ہے کہ روس یوکرین پر قبضہ نہ کر سکےاور روس کی مزید قوت میں اضافہ بھی نہ ہو سکے۔بالفرض جنگ آگے جاری رہتی ہےتو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ جوہری جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔جوہری جنگ کی خطرناکی کا ہر ایک کو اندازہ ہے۔کچھ عرصہ قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پوری دنیا میں نو ممالک کے پاس وار ہیڈز کی تعداد بارہ ہزار(12000)سے زائد ہے،جن میں صرف روس کے پاس چھ ہزار(6000) سے زائد وار ہیڈز پائے جاتے ہیں اور امریکہ کے پاس پانچ ہزار(5000)کے قریب وار ہیڈز پائےجاتے ہیں۔روس شکست کے امکان کو یا یقینی شکست کو دیکھ کر جوہری قوت کا استعمال کر سکتا ہے۔یہ جوہری جنگ صرف یوکرین کو تباہ نہیں کرے گی بلکہ اس کے اثرات دوسرے ممالک پر بھی پڑیں گے۔روس بڑی بڑی قوتوں کا مقابلہ کر رہا ہےاور یہ مقابلہ بتا رہا ہے کہ روس ابھی بھی طاقت کے لحاظ سےمضبوط ہے۔امریکہ کی امدادکی بندش سےجہاں یوکرین متاثر ہوگا وہاں یورپ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔روس کسی اور ملک کی طرف بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔روس نے اگر یوکرین کے بعد ایک دو اور ملک بھی اپنے قبضے میں لے لیےتو ماسکو لازما دوسرے ممالک کی طرف بھی بڑھنا شروع ہو جائے گا۔روس اور یوکرین جنگ رکنی چاہیےکیونکہ یہ جنگ بہت بڑے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔اس جنگ بندی کے لیے کوئی بھی کوشش کر رہا ہے تواس کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ یہ کوششیں پائیہ تکمیل تک پہنچ سکیں۔
چین نےبھی امریکہ کو فوجی بجٹ اور جوہری ہتھیار کم کرنے کی تجویز دی ہے۔امریکہ کے پاس سب سے بڑا فوجی بجٹ ہے اور یہ دنیا کے لیے خاصا خطرناک ہے۔چین کے مطابق واشنگٹن اور ماسکوپر جوہری ہتھیاروں کی کمی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کو کم کیا جائے یاضائع کر دیا جائے،لیکن اس تجویز پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ جوہری قوت کے مالک ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دفاع کے لیےاس قوت کا ہونا ضروری ہے۔اس کے بارے میں مختلف قسم کی تجاویزدی جاتی رہی ہیں،لیکن ان تجاویز پر عمل درامد ناممکن ہوگا۔کم از کم اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ملک ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کر سکے تاکہ دنیا کا امن برقرار رہ سکے۔اس بات کا بھی جائزہ لیاجا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکہ اور روس نیا اتحاد بنا لیں اور یہ اتحادکئی ممالک کے لیےخطرہ تصور کیا جائے گا۔یوکرین جس طرح دعوی کر رہا ہےکہ امریکی امداد کے بغیر شکست یقینی ہےاور اگر مزید امداد نہ ملی تویوکرین شکست کھا جائے گا،اس بات کا امکان پیدا ہو چکا ہے کہ ماسکو کا ساتھ دینے کے لیے واشنگٹن پوری طرح تیار ہو چکا ہے۔روس اور یوکرین جنگ بھی کئی نئی تبدیلیاں لائے گی۔یوکرین اگر شکست کھا جاتا ہےاور اس کی وجہ یہی ہوگی کہ امریکہ امداد کرنے سے پیچھے ہٹ گیا ہےتوبدلہ میں روس بھی اس قسم کی واشنگٹن کی مدد کر سکتا ہے۔
ماضی میں بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔اصل بات یہ ہے کہ ماضی میں لڑی جانے والی جنگیں مخصوص علاقوں تک محدود ہوتی تھیں اور کم نقصان دہ ثابت ہوتی تھیں لیکن موجودہ جنگیں بہت زیادہ انسان قتل کرنے کا سبب بھی بنتی ہیں اور علاقوں کو تباہ و برباد بھی کر دیتی ہیں۔صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگیں کبھی بھی نہ رک سکیں۔اب بھی مستقبل میں جنگیں رک نہیں سکتیں،اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کم انسان ان جنگوں کا ایندھن بن سکیں۔روس اگرجنگ میں شکست کھا جاتا ہےتو پھر بھی دنیا میں تو نہیں کہا جا سکتا،لیکن یورپ میں کچھ نئی تبدیلی پیدا ہو جائیں گی۔روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور یہ دولت یورپی یونین کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔اس دولت پر قبضے کے لیےنئے معاہدے کیے جائیں گے اور نئے اتحاد بھی بنیں گے۔روس کی شکست کا فائدہ امریکہ سب سے زیادہ اٹھانا چاہے گاکیونکہ امریکی امداد اس جنگ کا نتیجہ تبدیل کر دے گی۔عالمی منظر نامے میں بہت سی تبدیلیاں نظرآئیں گی اور یہ تبدیلیاں کسی کے لیے فائدہ مند ہوں گی اور کسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International