rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allanawazk012@gmail.com
روس اور یوکرین جنگ فروری 2022 میں شروع ہوئی اور ابھی بھی جاری ہے۔جب جنگ شروع ہوئی تو کئی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ جنگ کئی سال تک جاری رہ سکتی ہے۔روس کے مد مقابل صرف یوکرین نہیں تھا بلکہ امریکہ اور نیٹو بھی تھے۔سب سے بڑا اتحادی امریکہ ہےاور اس بات کااعتراف یوکرینی صدر ولادی میرزیلنسکی نے بھی کیا تھا کہ امریکہ کے بغیر چنگ لڑنا ناممکن ہے۔امریکہ نے مدد کرنےکےعوض یوکرین سے معدنیات میں حصہ طلب کیا،جس کومنظور کر لیا گیا۔اب اگر روس یوکرین جنگ نہیں رکتی تو امریکہ معدنیات کو حاصل نہیں کر سکے گا۔معدنیات کا حصول ویسےبھی خطرے میں پڑ سکتا ہے اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کر لیا۔امریکہ اب ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ بند ہو جائے تاکہ پرامن ماحول میں معدنیات حاصل کی جا سکیں۔امریکہ نےاب روس کو باقاعدہ دھمکی دے دی ہے کہ فوری طور پر جنگ کو روک دیا جائے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 14 جولائی کوروس کو 50دن کی مہلت دی تھی کہ وہ جنگ بندی کے لیے اقدامات کرے۔اب مہلت میں تبدیلی کر کے 8 اگست کی حتمی تاریخ دے دی ہے۔امریکی صدر نےکہا کہ ماسکو حکومت کے پاس اب صرف 8اگست تک کا وقت ہے،ورنہ امریکہ روس پر اضافی ٹیرف اور معاشی پابندیاں عائد کر دے گا۔ہو سکتا ہےٹرمپ جان چکے ہوں کہ 14 جولائی کو 50 دن والی مہلت نقصان دہ ثابت ہو،اس لیے ڈیڈ لائن میں تبدیلی کر دی گئی ہو۔امریکی صدر نےخبردار کیا ہے کہ اگر روس نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو امریکہ تجارتی سطح پر سخت فیصلے کرے گا جس میں ٹیرف میں اضافہ بھی شامل ہوگا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی مندوب نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ روس اور یوکرین کو فوری طور پر جنگ بندی اور مستقل امن کے لیے مذاکرات کرنے چاہیے۔امریکہ یوکرین کی فوجی امداد کر رہا ہےاور اسی امداد کی وجہ سے یوکرین ابھی تک روس کا مقابلہ کر رہا ہے۔روس نےیوکرین پر ٹرمپ کی وارننگ کے بعد حملے تیز کر دیے ہیں اور دو دن قبل ایک بڑا حملہ کیا جس کے نتیجے میں 28افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئےاور ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔جنگ نے یوکرین کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچا دیا ہےاور اس کو بحال ہونے میں کافی وقت درکار ہوگا۔بین الاقوامی برادری کی مدد سےیوکرین جلدی سنبھل سکتا ہے۔
ڈونالڈٹرمپ نےروس کے قریب دو ایٹمی آب دوزیں بھی تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے،جس کی وجہ سےماسکو کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نےسابق روسی صدر دمتری میدویدیف کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے جواب میں دو جوہری آبدوزیں روس کے قریبی علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔اس حکم نامے سےاشارہ ملتا ہے کہ اگر روس جنگ بندی نہیں کرتا تو امریکہ روس پرخطرناک حملہ بھی کر سکتا ہے۔اگر امریکہ جوہری حملہ کرتا ہے توزبردست تباہی پھیلنے کا امکان ہےنیزروس بھی جوابی حملہ کر سکتا ہے۔ایٹمی جنگ خطے کوبہت زیادہ نقصان پہنچائے گی۔روس اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ناخوشگوار رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن کے درمیان خوشگوار بات چیت ہوئی تھی،لیکن تعلقات پھر خراب ہو گئے ہیں۔کچھ عرصہ قبل جب امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تھاتوروس نے اس کی شدید مذمت کی تھی اور اس کوغیر ذمہ دارانہ حملہ کہا تھا۔روس نےاس امریکی حملے کو سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی طرف سے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا اور ساتھ ہی کہا تھا کہ اس سےخطہ میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔روس کا بیان درست تھا کیونکہ ایٹمی حملہ یا ایٹمی تنصیبات پر حملہ انتہائی غلط ہے۔امریکہ کی طرف سےروس کے قریب تعینات کی گئیں دوجوہری آبدوزیں خطرے کو بڑھا رہی ہیں۔اوراس عمل کا جواب روس بھی دے سکتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
روس اور یوکرین جنگ اگربند نہیں ہوتی تو یہ ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔2022 میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو کریملن کی طرف سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی طرف بھی اشارے ہوئے۔اس وقت امریکہ نے بھی وارننگ دی تھی کہ روس کو بھی رد عمل کے طور پرخوفناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔بعض ماہرین کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں سے مراد ٹیکٹیکل ہتھیار ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا مطلب ٹیکٹیکل ہتھیاراستعمال کرناہے۔ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار اسٹریٹیجک ایٹمی ہتھیاروں سے چھوٹے ہوتے ہیں،جو میدان جنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ٹیکٹیکل ہتھیار عام ہتھیاروں کی نسبت زیادہ تباہی مچاتے ہیں اس لیے یہ بھی خطرناک ہیں۔امریکہ نے جو دو جوہری آبدوزیں روس کے قریب تعینات کی ہیں ہو سکتا ہےوہ صرف وارننگ کے لیے ہوں،لیکن ان کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔امن پسندوں کے لیےخوشی کی بات ہوگی کہ روس اور یوکرین جنگ رک جائے تاکہ انسان تباہ ہونے سے بچ سکیں۔صرف یوکرین اور روس کی جنگ نہیں رکنی چاہیے بلکہ غزہ اور اسرائیل جنگ بھی رکنی چاہیے،تاکہ دنیا میں امن کی طرف بڑھا جا سکے۔جتنی تباہی یوکرین میں ہو رہی ہے اس سےکئی گنازیادہ تباہی غزہ میں ہو چکی ہے۔غزہ میں بمباری اور ہتھیاروں سے بھی انسان قتل ہورہےہیں اور بھوک بھی اپنی سفاکی سےفلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔یوکرین کی تو کئی ممالک مدد کر رہے ہیں لیکن فلسطینیوں کی مدد نہیں کی جا رہی۔بہرحال یوکرین کو بھی جنگ بہت نقصان پہنچا چکی ہے اس لیےہر ممکن کوششیں کی جائیں کہ جنگ رک جائے۔بے گناہ انسان جہاں بھی قتل ہوں،جرم ہی ہے۔
روس اور یوکرین جنگ کب تک جاری رہتی ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا،کیونکہ روس آسانی سےپیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن ساتھ سخت شرائط ہونے کی وجہ سےمذاکرات کی کامیابی مشکل نظرآتی ہے۔مشکل اس لیے کہ روس کوشش کرے گا کہ بطور ہرجانہ یوکرین سے معاوضہ وصول ہو اور یوکرین کی کوشش یہ ہوگی کہ بطور ہرجانہ روس معاوضہ ادا کرے۔روس اگر جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوتا تو یہ جنگ دوسرے ممالک کو بھی اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے۔روس آسانی سےجنگ بندی پرآمادہ نہیں ہوگا کیونکہ جنگ بندی کی صورت میں روس کی عالمی ساکھ متاثر ہوگی۔روس پہلے بھی واضح کر چکا ہے کہ یوکرین پر نیٹو یا کسی طاقت کااثرورسوخ برداشت نہیں کیا جائے گا۔اب آٹھ اگست تک انتظار ہے کہ امریکی دھمکی سے روس خوفزدہ ہو کر جنگ کو بندکرنے پر مجبور ہو جائے گا یا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگا۔امریکہ کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ روس بھی کوئی کمزور ریاست نہیں بلکہ ایک طاقتور ریاست ہے۔بہرحال امید کی جانی چاہیے کہ جنگ بندہو جائے گی،تاکہ امن کی طرف بڑھا جا سکے۔
Leave a Reply