rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
اگر ہر امیر ایک غریب کنبے کی کفالت کا ذمہ اٹھا لے اور ہر کپڑے کے کارخانے کا مالک ایک غریب گھرانے کی ستر پوشی کا اہتمام کر دے تو دنیا سے بھوک، غربت اور کسمپرسی کا خاتمہ ہو جاے، لیکن مسلہ ہے کہ ہم انسانوں میں سے زیادہ تر لوگ احساس جیسی نعمت سے محروم ہیں، اگر ہم پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں اور بہترین کپڑے پہن لیں، ہمارے سر پہ
چھت ہو تو ہم. لوگ اینویں ہی گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں کہ نہ ہمیں دکھی کی پکار سنای دیتی ہے نہ محروم کی محرومی دکھای دیتی ہے، پتا نہیں کونسی طاقت ہے جو انسان کو جب اپنے حصار میں لے لیتی ہے تو وہ اندھا، گونگا اور بہرہ ہو جاتا ہے، لیکن ماننا پڑے گا کہ ایسی شیطانی طاقت کا وجود روز آفرینش سے ہی موجود ہے. اور ہر طاقتور، کمزور کو اپنی شیطانیت کے بل بوتے پہ رگیدنا اپنا پیدایشی حق سمجھتا ہے اور اسی طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ایک ہی آدم اور حوا کے بطن سے جنم لینے کے باوجود تمام انسانوں کو علی الاعلان دو دھڑوں میں بانٹ چھوڑا ہے، قابض اور مقبوض
اب قابض، صاحب اقتدار ہیں ان کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوی اور بینک بیلنس بے تحاشا، ان کی جائیدادیں پورے دنیا کے تمام خطوں میں ایک پیدایشی حق کی مانند پھیلی ہوی ہیں وہ جو مرضی چاہے عیاشی کریں، دنیا کی جس بڑی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنا چاہیں، دنیا کی جس مرضی عیاشی سے مستفید ہونا چاہیں، ان کے لیے کوی بھی دنیاوی مسئلہ، مسلہ نہیں ہے اور آخرت کی انھیں پروا نہیں ہے تو غور فرمائیے گا دنیا پہ مسلط اس امیر کبیر قبضہ گروپ کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ آنکھیں کھول کر غریب اور محروم عوام کے دکھڑے بھی سنےاور پھر ان دکھڑوں کے حل کے لیے بھی تگ و دو کرے؟ ، لہٰذا وسائل پہ قابض گروپ دل وجان سے اس مقولے پہ عمل پیرا ہے کہ
تجھے پرای کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو
اور اسی نفسا نفسی کے گھن چکر میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر یوتا چلا جا رہا ہے، غریب سے اس کا گھر، وطن، پہچان حتیٰ کہ ایمان بھی چھیننے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، اور صدیوں سے دنیا اسی طرح چل رہی ہے، کیا یہ قابض اور مقبوض کی جنگ ختم ہو پاے گی، کیا دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت قایم ہوپاے گی؟ کیا لوگ اپنی روٹی کسی بھوکے کو کھلانے جیسی اخلاقی جرات پیدا کر پاییں گے؟ ، کیا لوگوں کے لالچ کی آگ کبھی ٹھنڈی ہو پاےگی؟ کیا مواخات اور مساوات کا دور وآپس آے گا؟
یا پھر ہم سب اندھے، گونگے اور بہرے لوگ اسرافیل کے صور پھونکے جانے کے انتظار میں اپنی ہوشیاریاں اور چالاکیاں اسی طرح اپنے بھائیوں پہ آزماتے رہیں گے؟ غور فرمائیے گا کہ وقت کا پہیہ کبھی بھی الٹا نہیں گھومتا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply