rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
کاٸنات رب کریم کی تخلیق ہے۔حسن و جمال کا سلسلہ ایسا کہ ہر چیز ورطہ حیرت میں ڈالتی ہے۔طاٸران چمن کی نغمہ سرائی سے دلوں میں ایک سکون اور راحت پیدا ہوتی ہے۔سرسبز پودے اور کھڑے شجر سایہ دار خوبصورتی کی علامت ۔پودوں پر لگے پھول اور ان کی بھینی بھینی خوشبو دلوں کو تروتازہ رکھتی ہے۔بہتے دریاؤں کا پانی اور لہروں کا شور٬خاموش سمندر اور سربفلک کوہسار یہ سب کچھ رب کریم نے تو انسان ہی کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔بقول شاعر:-
”تو نہیں جہان کے لیے٬جہاں ہے تیرے لیے“
گویا سب کچھ انسان کے لیے پیدا کیا گیا۔اس کے تناظر میں انسان کی عظمت کا راز کھلتا ہے ۔رب کریم کتنا مہربان ہے۔انسان کے لیے جہاں بے شمار نعمتیں پیدا فرماٸیں وہیں انسان کو عقل و شعور سے نواز کر علم کا تاج پہنا کر اشرف المخلوقات کا رتبہ عطا فرمایا۔گویا انسان کا مطلب ہی تو محبت کرنے والا ہے۔شاعر نے کیا ہی خوبصورت انداز میں شعر میں انسان کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔بقول شاعر:-
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے
ماہرین کے مطابق انسانیت کی معراج بھی تو یہی ہے کہ خدمت خلق کا مقدس فرض ادا کیا جاۓ۔عبادات اور معاملات خوش اسلوبی سے ادا کرنے سے انسان کے کردار اور سیرت کی تعمیر ہوتی ہے۔زندگی رب کائنات کی طرف سے مقدس امانت ہے۔اس کا مقصد ہی تو دوسروں کے کام آنا ہے اور درد بانٹنا ہے۔کلام اقبالؒ میں بچے کی دعا٬جگنو٬پرندے کی فریاد،ہمدردی جیسی نظموں میں قوم کے معماران کو انسانیت سے پیار اور محبت کا درس دیا گیا ہے۔کیا کبھی غور کیا کہ ہم زندگی کے سفر میں کہاں کھڑے ہیں؟حیرت ہوتی ہے انسانی رویوں پر جب بھاٸی کسی مصیبت یا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو دوسرا بھاٸی پوچھتا تک نہیں۔بقول شاعر:-
میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جاٶں کہ وہ دور جا کے روۓ
ایک درد مند دل کتنا قیمتی ہوتا ہے۔وہ انسانیت کے درد کی کسک محسوس کرتا ہے۔عظیم معلم انسانیت آپؐ کی زندگی ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال ہے۔غزوہ احد میں آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوۓ اور طائف کے شہر میں جوتے خون سے بھر گۓ لیکن پھر بھی تمام مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کر لیے۔انسانیت کی بھلائی کے لیے تمنا اور آرزو فرماتے رہے۔زبان مبارک پر دعائیہ کلمات جاری رہے۔کاش انسان دل کی گہرائیوں اس کائنات میں آمد کا مفہوم سمجھ سکے۔اسلام کی تعلیمات تو عالمگیر ہیں۔بھلائی کا تصور بہت واضح ہے۔حیرت ہے انسان کے طرز عمل پر کہ رویوں میں چاہت اور محبت کی چاشنی کم محسوس ہوتی ہے۔پڑوسی ملک بھارت نے بھی تو پانی بند کرنے کا ارتکاب کیا۔ انسانیت کے احترام اور بھلائی کے فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ بات ہمارے سامنے کس قدر شاندار ہے کہ غزوہ یرموک میں ایثار اور محبت سے سرشارصحابہ کرام نے زخمی حالت میں دوسروں کی پیاس کو اہمیت دی اور سب نے جام شہادت نوش فرمایا۔یہ بات بھی اچھی طرح جان لینے کی ضرورت ہے کہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر بچوں جیسی باتیں کرنا انسانیت کے ساتھ محبت نہیں۔انسانیت تو دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی تباہ کاریوں کی داستان آج بھی نہیں بھول سکی۔جنگ کی باتوں سے کوٸی اچھا پیغام نہیں ملتا۔زندگی تو رب کریم کی طرف سے امانت ہے اسے مسکرانے دو۔معاملات حسن و خوبی سے حل ہونے کا طریقہ کار موجود ہے اس پر عمل کی ضرورت ہے۔کاٸنات کی خوبصورتی کا حسن انسان کے طرز عمل سے بہتر ہوتا ہے۔اس لیے تعلیم اور ترقی کو ترجیح دینے سے امید افزاء صورتحال پیدا ہوتی ہے۔اس چمن کاٸنات اور انسانیت سے محبت کی شمع امن کی ضرورت ہے۔
Leave a Reply