تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

رہیں دِل ہی دِل میں حسرتیں

Articles , Snippets , / Wednesday, June 26th, 2024

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارےقارئین!زندگی کی حشر سامانیوں کے ہاتھوں مجبور لوگ کس قدر افسردہ اور غمگین ہوتے ہیں شاید اس کا ہمیں احساس نہیں ہوتا۔اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو ”تیری دنیا میں محکوم و مجبور“ کے مصداق زندگی کا سفر طے کرنے والوں کے دل کا ورق ورق پریشان ہوتا ہے۔بقول شاعر:۔
”قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم “
کی تصویر کی مانندصحراۓ زیست کے مسافر غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور لوگ سماج کی توجہ چاہتے ہیں۔بےروزگاری اور غربت کے ستاۓ لوگ جس اسلوب سے زندہ رہتے ہیں ایک افسردہ داستان ہے۔یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی زندگی مسائل سے بھرپور سلگتے انگارے کی مانند ہوتی ہے۔جس کی عکاسی شاعر نے ان ہی کے جذبات کی ترجمانی کرتے کہی بقول شاعر
رہیں دِل ہی دِل میں حسرتیں
تجھے حال دِ ل نہ سنا سکے
یہ تلخ حقیقت معاشرے میں پائی جانے صورتحال ایک المناک داستان معلوم ہوتی ہے۔بیمار معیشت اور بے روزگاری کا بے ہنگم طوفان زیست کے سفر میں متوسط طبقہ کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں۔بقول شاعر:.
غربت نے سکھا دی ہے میرے بچوں کو تہذیب
گویا کھانے پینے کی مہنگی اشیاء غریب لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں کہ معصوم بچے ترستے ہیں۔تعلیمی اخراجات کا بوجھ اس قدر کہ والدین مجبور ی کے عالم میں زندہ رہنے پر مجبورہیں۔اخراجات ناقابل برداشت اور گرمی کے سخت موسم میں بجلی کے بلوں کی اذیت ایک اور آزمائش سے کم نہیں۔زندگی تو ایسے روپ میں بدل چکی کہ ایک مسکراہٹ کے لیے بھی افراد سماج میں ترستے ہیں۔ایسے ماحول میں زندہ رہنا ایک آزمائش سے کم نہیں۔اگر خیابان زندگی میں رونق افروزی پیدا کرنے کی تمنا ہے تو مجبور لوگ پیش نظر رہیں۔حالات کے تقاضے یہی ہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔جب ان لوگوں کے حالات پر توجہ دی جاۓ جو روٹی کے نوالہ کو بھی ترستے ہیں۔نوبت خود کشی تک پہنچ جاتی ہے اس درد انگیز کیفیت سے مجبور لوگ تبھی نکل پاتے ہیں جب ان کے حالات پر توجہ مرکوز کی جاۓ۔وگرنہ حسرت و یاس کے ماحول میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے ۔ملکی وسائل سے آسانیاں پیدا کرنا,غربت کم کرنا,معاش کے لیے ذرائع پیدا کرنا,ضرورت مندوں کا خیال رکھنا,بھلائی سے پیش آنا,سفید پوش طبقہ کی عزت نفس کی بحالی کا احساس زندہ کرنا ,غربت کے شکار لوگوں کی بحالی کے لیے اقدامات تجویز کرنا اور خدمت خلق سے خیابان زیست میں رونق دستک دے پاتی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ زندگی کے چہرے پر شگفتگی اسی وقت رونما ہوتی ہے جب مسائل حل ہوں۔معاشرے میں اس وقت دراڑیں پڑتی ہیں جب ذرائع معاش کی تقسیم میں اعتدال نہ ہو۔غربت اور کرب کی کیفیت دوچار لوگ تو توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔فقط احساس زندہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔زندگی کا مقصد تو ایسا ہونا چاہیے بقول شاعر:۔
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے،ضعیفوں سے محبت کرنا
عصر نو کا منظرنامہ تو اور بھی افسردہ ہے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اس قدر خلاصی کی کوئی آس نہیں
بقول شاعر:.
جلا دیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا
کے مصداق زندگی کسی شجر سایہ دار کی تلاش میں ہے خوشحالی کی کیفیت تو بہت ہردالعزیز ہوتی ہے لیکن یہ نعمت بھی چلی گئی۔بس نفسہ نفسی کے عالم میں زندہ ہیں۔ہاۓ رے غربت کے ہاتھوں مجبور زندگی اور ہی افسردہ معلوم ہوتی ہے۔ہم سب مل کر غربت,افلاس,بے روزگاری اور دیگر مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کریں اور خدمت خلق کے حقیقی جذبہ کو زندہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ زیست کے سفر میں شگفتہ ماحول پیدا نہ ہو۔ایک نیک جذبہ سے سماج میں ایسی تبدیلی رونما ہو پاتی ہے جس کا متلاشی ہر فرد ہے۔یقین,تنظیم اور اتحاد سے بہتر صورتحال پیدا ہو پاتی ہے بات فقط اخلاص کی ہے۔نیک نیتی سے کام جاری رکھنے سے بہار زیست کی دہلیز پر دستک دے پاتی ہے۔اس نیک مقصد کے لیے مل جل کر کام کرنے کا عہد کیا جاۓ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International