ڈاکٹر شاہد حبیب
ریختہ ایک ایسا نام ہے جس نے پچھلی دہائی میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ ایک آن لائن پلیٹ فارم کے طور پر ریختہ نے اردو زبان، شاعری، ادب اور خطاطی کو ایک نئے انداز سے پیش کیا، خاص طور پر نوجوان نسل میں اردو کے لیے دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جشنِ ریختہ بھی اسی سلسلے کی ایک کامیاب کوشش ہے، جس میں اردو کے چاہنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے جُڑ کر اس زبان کی خوبصورتی اور گہرائی کا جشن مناتے ہیں۔ لیکن جشنِ ریختہ 2024 اور اس کے اردگرد کے حالات پر نظر ڈالیں تو کئی ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو اردو کے اصل وارثوں اور شائقین کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ ان مسائل میں اردو دانشوروں کی کم نمائندگی، اردو کو دیوناگری رسم الخط میں پیش کرنے کا رجحان، نجی اردو ناشرین کے اسٹالوں کی غیر موجودگی، اور ریختہ کا کارپوریٹ مزاج شامل ہیں۔ یہ سب مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کیا ریختہ اب بھی خالص اردو کا ادارہ ہے، یا یہ ایک ایسا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جو اردو کے جذبے کو تجارتی رنگ میں ڈھال رہا ہے؟
جشنِ ریختہ میں اردو کے معروف ادیبوں، شاعروں، اور دانشوروں کی موجودگی کبھی اس کا مرکز ہوا کرتی تھی، لیکن حالیہ برسوں میں یہ رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اردو زبان کے اصل ماہرین، جو برسوں سے اس زبان کی ترویج میں مصروف ہیں، اب یا تو پس منظر میں چلے گئے ہیں یا ان کی جگہ ایسی شخصیات نے لے لی ہے جن کی شہرت کارپوریٹ مارکیٹنگ کے ذریعے بڑھائی گئی ہے۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے کیونکہ اردو کی ترقی اور فروغ صرف اُس وقت ممکن ہے جب اس کے اصل معماروں کو وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ جشنِ ریختہ جیسے پلیٹ فارمز پر اردو کے محققین، اساتذہ، اور ان لوگوں کو نظرانداز کیا جانا جو زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اب اس تقریب کا مرکز اردو زبان کا فروغ کم اور ایونٹ کی گلیمرائزیشن زیادہ ہو گئی ہے۔
ریختہ کے پلیٹ فارم پر ایک اور تشویش ناک رجحان اردو ادب کو دیوناگری رسم الخط میں پیش کرنے کا ہے۔ اگرچہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ دیوناگری میں اردو کو شامل کرنے سے غیر اردو داں افراد بھی اردو ادب سے مستفید ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے نتائج اردو کی اپنی شناخت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اردو کی اصل پہچان اس کا رسم الخط ہے، اور اس کی جگہ کسی دوسرے رسم الخط کو دینا نہ صرف اردو کی تہذیبی جڑوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ اس زبان کی ثقافتی وراثت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ریختہ کا یہ عمل درحقیقت اردو کی اصل روح کو دیوناگری کی گرفت میں ڈال رہا ہے، جو اردو کی موجودہ حالت کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ اردو کو سمجھنے اور اس سے محبت کرنے کے لیے اس کے رسم الخط کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ خطرہ ہے کہ آنے والی نسلیں اردو کو صرف دیوناگری میں دیکھیں گی اور اس کے اصل جمالیاتی اور ثقافتی پہلو سے محروم رہ جائیں گی۔ ان ہی احساسات کے تحت اردو دانشوروں نے ریختہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اردو مواد کو دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرتے ہوئے ایک شفاف روایت قائم کریں۔ تجویز یہ تھی کہ ویب سائٹ اور مطبوعات دونوں جگہوں پر واضح طور پر یہ ذکر کیا جائے کہ “اصل متن اردو رسم الخط میں لکھا گیا تھا، اور اسے فلاں نے دیوناگری میں منتقل کیا ہے”۔ یہ وضاحت نہ صرف شفافیت کو فروغ دے گی بلکہ اردو ادب کی اصل روح کو بھی محفوظ رکھے گی۔ اس سے قاری میں اردو رسم الخط سیکھنے کی ترغیب پیدا ہوگی، کیونکہ اصل لطف تو اردو مواد کو اس کے حقیقی رسم الخط میں پڑھنے میں ہی ہے۔ دوسرا اہم فائدہ یہ ہوگا کہ مستقبل میں اگر کوئی اردو مواد کو دیوناگری رسم الخط میں ہونے کی بنیاد پر ہندی ادب کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کرے، تو یہ وضاحت اس کے دعوے کو کمزور کرے گی۔ اردو اور ہندی کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی کوششیں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ لیکن اگر اردو رسم الخط کے تحفظ کے لیے دیوناگری میں ترجمہ شدہ مواد کے ساتھ اصل کا ذکر کیا جائے، تو اردو کی انفرادیت اور تہذیبی ورثہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک زبان کے تحفظ کی حکمت عملی ہوگی بلکہ اس کے ادب اور تاریخ کے لیے ایک اہم اقدام بھی ثابت ہوگی۔ لیکن محسوس ہوا کہ ریختہ نے اس مشورے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔
جشنِ ریختہ 2024 کے ایک اور اہم پہلو پر غور کیا جائے تو نجی اردو ناشرین کی غیر موجودگی خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ اردو کتابوں کے وہ ناشرین، جو برسوں سے اردو زبان کی خدمت میں مصروف ہیں، اس سال کے جشن میں نظر نہیں آئے۔ اس کی بنیادی وجہ جشن کے اسٹالز کی بھاری بھرکم فیس تھی، جو لاکھوں روپے کے آس پاس تھی۔ یہ فیس چھوٹے اور درمیانے درجے کے اردو ناشرین کے لیے ناقابل برداشت ہے، اور نتیجتاً وہ اس جشن میں حصہ لینے سے محروم رہے۔ یہ صورتحال واضح طور پر ریختہ کے کارپوریٹ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ایسے جشن میں، جس کا مقصد اردو زبان کا فروغ اور ترویج ہونا چاہیے، اردو ناشرین کو مالی وجوہات کی بنا پر باہر رکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جشن کی انتظامیہ کا زور منافع کمانے پر زیادہ ہے اور اردو کے حقیقی خادمین کو ساتھ لے کر چلنے پر کم۔ اس سے نہ صرف اردو کتابوں کی تشہیر متاثر ہوئی بلکہ قارئین کو بھی محدود مواقع فراہم کیے گئے۔
ریختہ، جو کبھی خالص اردو کی خدمت کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر شروع ہوا تھا، اب ایک مکمل کارپوریٹ مشینری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی مینجمنٹ ٹیم اب اتنی اہل ہو چکی ہے کہ اسے اردو والوں کے تعاون کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اردو کے چاہنے والے اور شائقین جو کبھی اس پلیٹ فارم کی جان تھے، اب صرف سامعین یا صارفین بن کر رہ گئے ہیں، جنہیں مختلف طریقوں سے مالی فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ریختہ کے مختلف ایونٹس میں شائقین کی شرکت کو ایک تجارتی موقع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ٹکٹوں کی فروخت، کارپوریٹ اسپانسرشپ، اور دیگر تجارتی سرگرمیاں ریختہ کو ایک منافع بخش ادارہ بناتی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس منافع سے اردو کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ کیا یہ سرمایہ اردو کے معیاری فروغ کے لیے استعمال ہو رہا ہے، یا صرف ایک کاروبار کو بڑھانے کے لیے؟
اس تمام تنقید کے باوجود، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اردو کے شائقین اور اہلِ قلم نے خود بھی ریختہ جیسے پلیٹ فارمز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اگر اردو کے ماہرین اور چاہنے والے خود اپنے پلیٹ فارمز کو مضبوط کرنے پر توجہ دیتے، تو شاید ریختہ کی کارپوریٹ شکل اتنی غالب نہ آتی۔ اردو کے وارثوں کو چاہیے کہ وہ ایسے پلیٹ فارمز کو تقویت دیں جو خالص اردو کی خدمت کے لیے کام کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ مکمل طور پر ریختہ جیسے اداروں پر انحصار کریں۔
ریختہ، خاص طور پر جشنِ ریختہ، اردو زبان کے فروغ کے لیے ایک اہم کوشش ہے، لیکن اس کا کارپوریٹ مزاج، دیوناگری رسم الخط کا بڑھتا ہوا استعمال، اردو ناشرین کی غیر موجودگی، اور اردو دانشوروں کی کم شمولیت اس کے اصل مقصد کو متاثر کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے چاہنے والے اور ماہرین مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ اردو کی اصل روح اور وراثت محفوظ رہے۔ ریختہ کے منتظمین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی کامیابی اردو زبان اور اس کے چاہنے والوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ریختہ اردو کے حقیقی وارثوں اور دانشوروں کو مرکزی مقام دے، اور دیوناگری پر اردو رسم الخط کو فوقیت دے، تو یہ نہ صرف اردو زبان بلکہ خود ریختہ کے لیے بھی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
Leave a Reply