Today ePaper
Rahbar e Kisan International

زراعت کاشعبہ تباہی کےدہانےپر

Green Pakistan - گرین پاکستان , Snippets , / Monday, August 11th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

زراعت کاشعبہ تباہی کےدہانےپر
پاکستان کا ہر شعبہ زوال کی طرف جا رہا ہےاور زراعت کا شعبہ تو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن زراعت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی،جس کاخمیازہ بھی پوری قوم بھگت رہی ہے۔حکومتی بے حسی اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔اجناس کی کاشتکاری کے لیےبہت سا سرمایہ لگایا جاتا ہے،لیکن کسان کو منافع کی بجائے خسارہ ملتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کسانوں کو موجودہ سال(2025)کے پہلے چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر26۔1کھرب روپے نقصان ہوا۔اتنا خسارہ کسانوں کی برداشت سے باہر ہے اس لیےزراعت کا شعبہ تباہ ہو رہا ہے۔کسان بیچارےکو منافع تو چھوڑیے،پوری لاگت بھی وصول نہیں ہوتی تو وہ بد دل ہو کرکاشتکاری سےدستبردار ہو جاتا ہے۔گندم دیگر اجناس کی نسبت زیادہ کاشت کی جاتی ہے کیونکہ یہ خوراک کا لازمی جزو بن گئی ہے۔اب کسان گندم کاشت کرنے سےبیزار ہو چکے ہیں۔ضروری جنس ‘گندم’ کی کاشت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ شعبہ بھی بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔پاکستانی کسانوں سے گندم کی خریداری نہ کرکے بیرون ملک سےدرآمد کی گئی،جس کی وجہ سے کسان سستے داموں گندم فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔مسئلہ یہ نہیں کہ گندم کا ریٹ پاکستان میں بہت کم ہو گیا ہے،بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسانوں کوبہت نقصان پہنچایا گیا۔گندم یا کوئی فصل کاشت کرتے وقت کسان کو کافی محنت کے علاوہ دیگر اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں۔زراعت کے لیےمشینری کا استعمال بھی ضروری ہو گیا ہےاور ہر کسان ذاتی طور پر مشینری نہیں خرید سکتا اس لیےکرائے پرحاصل کی جاتی ہے۔مثال کے طور پرزمین کوآباد کرنے اورہل چلانے کے لیے ٹریکٹرکی ضرورت ہوتی ہےاور ٹریکٹر مالک کو،کسان فی گھنٹہ کے حساب سے ادائیگی کرتاہے۔علاوہ ازیں فصل کی کاشت یاکٹائی کے لیے بھی مشینری کی ضرورت ہوتی ہے۔حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے توکسان کو ریلیف ملنا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات کوپورا کرسکے۔کسان اگر خسارہ اٹھاتا رہے گا تو تنگ آکر وہ فصل کاشت کرنا بھی چھوڑ دے گا۔
زراعت کے شعبے کوبہت سے عوامل نقصان پہنچا رہے ہیں۔بعض اوقات ناقص بیج اور ناقص کھاد کسانوں کوفروخت کر دی جاتی ہے۔کھاد کے ریٹ ویسے بھی زیادہ ہیں۔غیر معیاری بیج کو معیاری کہہ کر فروخت کر دیا جاتا ہے جس کا نقصان کسان اٹھاتا ہے۔رہی سہی کسر جعلی زرعی ادویات پوری کر دیتی ہیں۔حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے کہ کھاد بھی کنٹرول ریٹ پر بکے،زرعی ادویات بھی خالص ہوں اور بیچ بھی معیاری ہو۔کسانوں کو بجلی کے سلسلے میں بھی سبسڈی دی جائے کیونکہ بہت سےعلاقوں میں بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل مالکان کسانوں کو مہنگا پانی فروخت کرتے ہیں۔زراعت کا شعبہ بہتر بنانا ہے تو ان تمام مسائل کو حل کرنا ہوگا جو زراعت کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔کسانوں کو اگر اس طرح مجبور کیا گیا کہ وہ زراعت سے بدظن ہو جائیں تو مستقبل میں اس کے نتائج بہت ہی خوفناک ہوں گے۔اب بھی بہت کچھ ہاتھ میں ہے ورنہ بعد میں پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
زراعت کا شعبہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔زمینوں پر کام کرنے والے افرادروزگار حاصل کرتے ہیں اوردیگر زراعت سےمنسلک شعبوں کے افراد بھی روزگار حاصل کرتے ہیں۔مثال کے طور پرکھاد بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے افرادبرسرزگار ہوتے ہیں یا زرعی ادویات بنانے والی فیکٹریوں میں بھی بہت سے افراد ملازمت کرتے ہیں،اسی طرح دیگر شعبوں میں کام کرنے والے افراد معاوضہ حاصل کرتے ہیں۔بہت سی انڈسٹریز زراعت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔مثلا شوگر انڈسٹری گنے سےرواں دواں رہتی ہےاور گنا کھیتوں میں اگتا ہے۔کپاس سے ٹیکسٹائلز ملز کا نظام چلتا ہے اور کپاس کسان کاشت کرتے ہیں۔ایسی کئی انڈسٹریز کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جوزراعت کے تعاون سےچلتی ہیں۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ زراعت پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے۔زراعت کا شعبہ تباہ ہو رہا ہے،اگر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو یہ چند سالوں میں ہی مکمل تباہ ہو جائے گا۔
زراعت کا شعبہ نظر انداز کر کےہم بہت خسارے کا شکار ہو جائیں گے۔فوری طور پر ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جس سے زراعت کا شعبہ آگے بڑھ سکے۔جہاں فصلیں کاشت ہو رہی ہیں وہاں بھی توجہ دینی چاہیے اور جہاں رقبہ ضائع ہو رہا ہے،اس کی طرف بھی فوری طور پر توجہ دی جائے۔پاکستان کا کل رقبہ 6۔79ملین ایکڑ ہے،جس میں 7۔23ملین ایکڑ رقبہ قابل کاشت ہے۔اس میں بہت سا رقبہ سیم تھور کا شکار ہوکرغیرآباد ہے۔سیم۔تھور کو ختم کرنے کے لیےحکومت کسانوں کو خصوصی سبسڈی دے تاکہ وہ رقبہ آباد ہو کرزراعت کے قابل ہو سکے۔کئی علاقہ جات تک دریائی پانی آسانی سے پہنچایا جا سکتا ہےتو وہاں تک پانی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔جن زرعی رقبہ جات تک دریائی پانی پہنچانا مشکل ہو وہاں سستے ریٹ پرپانی دستیاب ہونا چاہیے۔ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں،کیونکہ کاشت کاری سے کسان کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے اس لیے وہ زمینوں کو مہنگے داموں فروخت کر کےبھاری منافع کما لیتا ہے۔حکومت اس قسم کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ زرعی رقبے کو بچایا جا سکے۔جاگیرداری نظام نے بھی زراعت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔کئی علاقوں میں کسان بھاری ٹھیکے پر رقبہ حاصل کرتے ہیں لیکن وہ نقصان اٹھا لیتے ہیں،لیکن جاگیردار کو ٹھیکہ پورا دینا پڑتا ہے۔اس طرح کسان دو قسم کے نقصان اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے،ایک تو فصل سے نقصان اٹھاتا ہے اور دوسرا ٹھیکہ کی رقم ادا کر کے نقصان اٹھانے پر مجبور ہے۔ناخواندگی بھی زراعت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔کسانوں کوآگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ زراعت میں جدت لا کرپیداوار کو بہتر کرسکیں۔اس کے علاوہ جتنے بھی مسائل ہیں،ان کو فوری طور پرحل کیا جائےتاکہ زراعت کاشعبہ بہتری کی طرف گامزن ہو سکے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International