rki.news
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
زندگی اَن سُنی کہانی ہے
یہ کہانی تمہیں سُنانی ہے
زندگی کیا ہے ؟ کیا بتاؤں میں
کتنے غم ہیں چُھپے دِکھاؤں میں
یہ زمانی ہے اور مکانی ہے
جس کو مل جائے پھر وہ شُکر کرے
ذوق سے اپنے اُس میں رنگ بھرے
شُکر کے ساتھ یہ بِتانی ہے
جس کو مل جائے اُس کو قسمت سے
پھر بِتانی ہے اُس کو ہمّت سے
زندگی اُس کو آزمانی ہے
جھیلنی پڑتیں مشکلیں ہیں پھر
سہنی پڑتیں اذیتیں ہیں پھر
دور سے یہ لگتی سُہانی ہے
دل نہ اس میں بہت لگاؤ تم
دین سے آخرت بناؤ تم
ہاتھ سے یہ نکل ہی جانی ہے
کون آکر رہا ہمیشہ یہاں
آئے ہیں جانے کے لئے انساں
جو بھی کچھ ہے یہاں وہ فانی ہے
ملتی ہے آزمانے کی خاطر
بس رضا ربّ کی پانے کی خاطر
بات پھر یہ کسی نے مانی ہے
سانس کے چلنے تک چلے گی زیست
تم کو پانی ہے آخرت کی زیست
ورنہ سانسوں کی ہی روانی ہے
کیا ضروری ہے خواب ہوں پُورے
ہم کو ہر طور یہ نبھانی ہے
اب حقیقت ہیں سپنے دنیا میں
ہر طرف ہیں جو اپنے دنیا میں
شادمانی ہی شادمانی ہے
زیست گزری ثمر یوں تیزی سے
گزری کب ہے کسی کی مرضی سے
زندگی سب کی آنی جانی ہے
بیت جائے یوں زندگانی ہے
Leave a Reply