rki.news
صبوحی ایک سات سالہ پیاری سی.،ہنستی مسکراتی،بچی تھی، ماں نے دو چوٹیاں کس کے کر دی تھیں، فرنچ ٹوسٹ کا ناشتہ کروا کے ساتھ میں آملیٹ سینڈوچ بنا کے لنچ باکس میں رکھ دیا تھا، سلیبس کی ساری کتابیں اور کاپیاں اس کے ساتھ بستے میں رکھ کے ماں نے اپنی لاڈلی کو دعاووں کے ہالے میں سکول روانہ کیا تھا، سارا دن پڑھای میں گزر گیا چھٹی کے وقت جب مارے تھکاوٹ کے صبوحی سے سکول کا بستہ اٹھانا بھی دوبھر ہو رہا تھا، اچانک ایک درمیانی عمر کا آدمی باییک پہ سوار، صبوحی کے سامنے آ کے کھڑا ہو گیا اور بولا گڑیا مجھ سے دوستی کرو گی کیا؟ میں تمہیں چاکلیٹس، کھلونے اور ڈھیر سارے پیسے دوں گا، سات سالہ صبوحی کے لیے یہ سب کچھ ایک عذاب الہی سے کم نہ تھا، خیر؟؟؟؟
ثناء ایک سترہ سالہ شوخ و چنچل، زندگی اور زندگی کی رعنائیوں سے بھر پور ایک خوبصورت لڑکی تھی،جس کے آباو اجداد تو چترال کے ایک گاوں سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ اپنے والدین اور پندرہ سالہ بھائی کے ساتھ اسلام آباد میں رہایش پذیر تھی، ثنا پری میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی اور ٹک ٹاکر تھی, جس کے فالورزکی تعداد لاکھوں میں تھی، وہ اپنی بلوریں آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجاے، نہ صرف ایک اچھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی بلکہ شہرت کی بلندیوں کو چھو کر خوب نام اور پیسہ کمانا بھی چاہتی تھی اور پھر وہ ہو گیا جس کے بارے میں کبھی ثناء نے اور اس کے گھر والوں نے سوچا بھی نہ تھا، ثناء کے گھر میں اس کی سالگِرہ والے دن ایک باییس سالہ لڑکے نے گھس کر ثناء کو بے دردی سے قتل کر دیا. خوابوں کی قیمت چکانی تو پڑتی ہے.
خواب دیکھے ہیں تو قیمت بھی چکای ہے ناں
خواب ہم جیسوں کو رستے سے ہٹا دیتے ہیں
نور مقدم ایک آزاد خیال خاندان میں پیدا ہوی،اس کی دوستی ایک امیر خاندان کے سپوت جعفر سے ہوتی ہے وہ اسے ایک شام اپنے گھر بلاتا ہے، مرد عورت کے آزاد ملاپ کو کسی بھی معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا خیر مقدر ہار جاتے ہیں اور اس ملاقات کا انجام مقدم کے بہیمانہ قتل پہ ہوتا ہے، اپنی لاڈلی بیٹی کی سر کٹی لاش دیکھ کر والدین کے دلوں پہ کیا بیتی ہوگی؟؟؟
اور جب ستاون سالہ نذیر بیگم دماغ کے کینسر سے پورا سال لڑ کے جان کی بازی ہار گئی اور اگلی صبح یہ جان بلب خبر سن کے اہل شہر عالم سوگ میں ڈوب گیے کہ ستاون سالہ نذیر بیگم کی لاش کی قبر کھود کردس لوگوں نے اس سے اجتماعی زیادتی کر ڈالی،ہے نہ افسوس کا مقام.
تو صرف ایک ہی سوال ہے معاشرے سے، کیا ان تمام واقعات میں ان بچیوں، ان خواتین نے مردوں کو دعوت گناہ دی، کیا مردوں کو رجھانے کی کوشش کی، تو بھلے عورت کی عمر سات سال ہو، سترہ سال کی ہو، ستائیس سال کی ہو، ستاون سال کی ہو، وہ ہے معاشرے کے رحم و کرم پہ ہی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply