یادوں کی پٹاری کھولی ہے
کچھ سانپ نکل کر آئے ہیں
اور پھن پھیلائے سامنے ہی
یادوں کی بین پہ ناچتے ہیں
یہ سانپ جو ملتے جلتے ہیں
کچھ غیروں اور بیگانوں سے
کچھ اپنوں سے ، کچھ یاروں سے
سب سامنے میرے آتے ہیں
اور ہنس ہنس مجھے جلاتے ہیں
ان سانپوں میں
ایک چھوٹا سا
اک ننھا سا ، اک پیارا سا
کچھ چنچل سا ، کچھ نٹ کھٹ سا
ہے سانپ تمھارے جیسا بھی
جسے دیکھ کے یاد آیا ہے مجھے
کیسے دیکھ کے پہلی بار اسے
میں دل اپنا تھا ہار گیا
سب جان و جگر تھا وار گیا
کچھ دن گذرے تھے خوشیوں کے
پھر سانپ کی فطرت جاگ گئی
تھا وار جفا کا مجھ پہ کیا
اور ہجر کے دانت سے کاٹ لیا
مجھے تنہائی کا زخم دیا
میرے پورے بدن میں پھر اس نے
اک زہر جدائی اتار گیا
یادوں کی پٹاری کھولی ہے
کچھ سانپ نکل کر آئے ہیں
وہ چنچل سا ، وہ نٹ کھٹ سا
جو سانپ تمھارے جیسا ہے
وہ پھن پھیلائے بیٹھا ہے
مجھے ہجر کے دانت سے اکثر ہی
یونہی پل پل کاٹتا رہتا ہے
اور یاد تمھاری اس دل میں
سر و سبز و تازہ رکھتا ہے
عامرمُعانؔ
Leave a Reply