rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا غالب کے اس دل نشیں شعر میں سرِ فہرست کربِ فراق و زوالِ جمال کا وہ ازلی احساس پوشیدہ ہے جس نے اردو شعریات کو روح عطا کی۔ مطلعِ کلام ہی میں ’’سب کہاں!‘‘ کی حسرت بھری چیخ ایک ایسی ہَول ناک خامشی کو توڑتی ہے جو انسانی تاریخ کے سینے پر پتھّر کی طرح جم جاتی ہے۔ شاعر یوں گویا ہے کہ زمانے کی طُویل رہگزار میں ہم جن ہستیوں، جن جلوؤں اور جن جمالیات سے گُزرتے رہے، وہ اب منظر پر موجود نہیں، گویا حیات کے وسیع البال صحرا میں رنگ و نور کے ہتھیار سرک چکے ہیں اور بجائے خود ویرانی کا عَلم لہرا رہا ہے۔
’’کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‘‘
میں غالب نے ’’لالہ‘‘ اور ’’گل‘‘ جیسے فطری استعاروں کے پیرایے میں باقی رہ جانے والے حسن کو متمثِّل کیا ہے۔ دشت و دامن میں جس قدر رنگ و بو کا چرچا ہے، وہ دراصل اُن ہی مہکتے وجودوں کی بازگشت ہے جو کسی زمانے میں حیات کے گلشن میں مسکراتے تھے۔ یہاں شاعر نے فطری جمال اور انسانی وجود کے درمیان ایک لطیف ربط قائم کیا: جیسے خونِ انسانی کا سرخی مائل لہو ’’لالہ‘‘ کی رنگت میں ڈھل گیا ہو، اور تبسّمِ سخن ’’گل‘‘ کی پنکھڑیوں میں بسیرا کر گیا ہو۔ یہ ’’حسنِ تعلیل‘‘ کا حسین نمونہ ہے جہاں خد و خالِ محبوب کی گم شدگی کا سبب خود مظاہرِ فطرت کی جلوہ گری کو قرار دیا گیا ، جس سے ایک طرف اِشعار میں تابندگی و رعنائی پیدا ہوئی، دوسری جانب آہنگِ ماتم میں ایک نازک جمالیاتی توازن قائم رکھا گیا۔
دوسرا مصرع
’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں‘‘
عمقِ فکری اور کثافتِ معنوی کا مرقع ہے۔ یہاں شاعر نے ’’خاک‘‘ کے اندر محو جملہ پیکروں کی طرف اشارہ کر کے فنا و بقا کے ازلی جدلیاتی تصوّر کو چھیڑا ہے۔ سوالیہ طرزِ بیان کے ذریعہ وہ قاری کو تفکّر کی اُس کُلفت آمیز راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مٹی کے نیچے تہ در تہ اسرار پوشیدہ ہیں:
وہ صورتیں جن کی کونپلیں وقت کی خاک اُڑنے سے قبل مہکتی تھیں، اب عدم کی آغوش میں گم ہیں۔ اس تمثیل میں ایک طرح کی ’’ایہام‘‘ آمیختگی بھی پائی جاتی ہے: لفظ ’’صورتیں‘‘ محض چہرہ و نقش کا حوالہ نہیں بلکہ تہذیبی اقدار، علمی کمالات، اور روحانی مراتب تک کی ہمہ گیر نمائندگی کرتا ہے۔ یوں شعر کی معنویت صرف حسیات کی سطح تک محدود نہیں رہتی بلکہ ایک متصوّفانہ جہت اختیار کر لیتی ہے جہاں ’’خاک‘‘ ربانی دستِ قدرت کا کارخانہ بن کر سامنے آتی ہے۔
غالب کا لَے نازک ہے مگر تاثیر میں گہرا۔ شعر کا لفظی توازن دیکھیے کہ پہلے مصرع میں ’’سب کہاں‘‘ کی کشادہ وسعت اور دوسرے مصرع میں ’’کیا صورتیں‘‘ کا حیرت افزا انقباض زبان کے تار و پود میں ایسا لَہرا پیدا کرتا ہے جو خواندہ دلوں کی ریشوں کو چھیڑ دیتا ہے۔ بحرِ رمل کی نَبرَد سے پیدا ہونے والا صوتی آہنگ، پہلے مصرع کے آخری رکن ’’ہو گئیں‘‘ کے بعد ایک لمحاتی توقف اور پھر دوسرے مصرع کے ابتدائی الفاظ ’’خاک میں‘‘ سے دھیرے دھیرے گرتا ہے: جیسے ضمیر ڈھلتا ہو، سینہ سُلگتا ہو، اور پھر مچلتی ہوئی سانسیں خاک اوڑھ کر سو جاتی ہوں۔ غزل کے عالَم میں یہ بندِ شعر اپنی تمام تر نغمگی کے باوجود ایک غمگین وحشت کو برقرار رکھتا ہے، جو کہ غالب کا امتیاز ہے۔
اگر اس شعر کو مابعدالطبیعیاتی یعنی میٹافیزیکل زاویے سے دیکھا جائے تو یہ کائنات کی روحانی سائکل پر روشنی ڈالتا ہے: زندگی، ظہور، غروب، ’’لالہ و گل‘‘ ظہور کے علامات ہیں ، حسین، عارضی، رنگین ، جبکہ ’’خاک‘‘ غروب کا استعارہ ہے۔ پر سکوت، ثابت، لازوال۔ شاعر رازدانِ فطرت بن کر بتاتا ہے کہ وجود کا ماحصل اسی ’’خاک‘‘ میں ضم ہونا ہے۔ تاہم، وہ کائنات کی خاموشی میں بھی ایک گویا ارتعاش محسوس کرتا ہے: جو محو ہے، وہ صرف گم نہیں: شاید ایک نئے حُسن کی تخلیق کے لیے پنہاں ہے۔ یہ گُمان اردو شعری روایت کے اُس تصورِ حیات و موت سے جڑتا ہے جہاں فنا بذاتِ خود تسلسلِ ہستی کی ضمانت ہے۔
لسانی اعتبار سے شعر میں داخلی موسیقیت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ’’لالہ‘‘ اور ’’گل‘‘ کی ہم صوتی کیفیت ’’صورتیں‘‘ اور ’’پنہاں‘‘ کی صامت و مصوت کی مدد سے ابھرنے والی لرزشِ صوتی کو کامل کر دیتی ہے۔ ردیف ’’ہو گئیں‘‘ دونوں مصرعوں کو ایک معنوی تسلسل میں باندھ کر نہ صرف غزل کے قافیہ جاتی حسن کو برقرار رکھتی ہے بلکہ ایک گونہ ٔ حزنِ رفتگاں کی یگانگت بھی مہیا کرتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں غالب کا لسانی جادو پوری شان سے جلوہ گر ہوتا ہے: سادہ لفظیات میں بےپایاں مفہوم، مستقل مزاج بہاؤ میں اعجاز آفرین سنگینی۔
آخرش یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس شعر نے فرد کی شخصی ترنگ کو کائناتی ادراک میں ضم کر دیا ہے۔ ہم گُزرتے لمحوں میں جس حسن کی جھلک دیکھتے ہیں، وہ لازوال نہیں، مگر اس کے نشانات ”بصورتِ لالہ و گل“ ہمارے گردو پیش میں باقی رہ کر ہمیں فنا کے اسرار سے روشناس کرواتے رہتے ہیں۔ اور خاک کی آغوش وہ چھپر ہے جہاں ہر صورت دھڑک رہی ہے، البتہ ہماری نگاہوں سے اوجھل۔ غالب کے اس دو مصرعے نے فانی انسان کو اپنے امکانِ بقائے معنوی کا سراغ دیا۔ اگرچہ وجود مٹ جاتا ہے، اثر کا سایہ ابد تک ان گنت رنگوں میں جنبش کرتا رہتا ہے۔ یہی تو غالب کا لا جواب اِعجازِ فن ہے کہ وہ حرف کے ذریعے عدم کو بھی نغمہ بنا دیتا ہے۔
Leave a Reply