rki.news
حریر: شازیہ عالم شازی
ہماری یہاں سردیاں آتی ہیں تو محض موسم نہیں بدلتا،ایک پوری تہذیب جاگ اٹھتی ہے ہاتھوں میں کپکپاتی گرمائش، گلی محلّوں میں بھاپ اگلتی ریڑھیاں، اور گھروں سے اُٹھتی نو رتن کی خوشبوئیں۔۔۔
یہ سب مل کر سردیوں کا ایسا منظرنامہ تشکیل دیتی ہیں جیسے یہ ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے گجک، مونگ پھلی، گاجر کا حلوہ اور شکر قندی کا میٹھا یہ سب صرف کھانے نہیں بلکہ عمر بھر کمائی ہوئی کی مشترکہ یادیں ہیں۔
بچپن میں سردیوں کی راتوں کا اپنا جادو تھا۔ گلی کے نکڑ پر چنے بھوننے والے کی بھٹی، گجک والے کی کھنک دار صدا، اور آگ کے انگاروں میں دبی ہوئی شکر قندی کی پُرکشش مہک…
سچ بتائیں تو ان میں ایسا جادو تھا کہ جس کا سحر ہمیں کھنچ کر باہر لے آتا تھا۔۔۔ مگر سب سے مسحور کن سوغات مونگ پھلی کا وہ تھیلا ہوتا تھا جو ابو آفس سے واپسی لاتے کہ جس کے کھلتے ہی جیسے سردیوں کی ساری رونق ہاتھوں میں سمٹ آتی تھی ایک لحاف میں بہن بھائی دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے اور پھر مونگ پھلی کے چھلکوں کے ساتھ دن بھر کے قصے جمع ہوتے مونگ پھلی کھانے کا لطف اس کے ذائقے سے کہیں زیادہ مزہ اس کھیل میں تھا جو ہم اس کے چھلکوں کے ساتھ کھیلتے تھے یعنی کھائے ہوئے چھلکے مٹھی میں بھر کر کھنگھالے جاتے، اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی دانہ چھپ کر رہ گیا ہو۔ اور جب واقعی ایک آدھ دانہ نکل آتا، تو وہ لمحہ ایک چھوٹی سی فتح کی مانند محسوس ہوتا تھا یہ بچپن کی ایک سادہ مگر دل گداز خوشی تھی مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جادو آج بھی برقرار ہے۔ ہم چاہے جتنی احتیاط سے مونگ پھلی کھائیں، آخر میں جب چھلکے کھنگھالتے ہیں تو ایک دو دانے جیسے کہیں غیب سے نکل ہی آتے ہیں یہ گھُتی آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کے معلوم نہیں کہ وہ کہاں چھپے رہتے ہیں کھانے کے دوران نظر نہیں آتے، مگر چھلکے جھاڑتے ہی مسکراتے ہوئے سرپرائز کر دیتے ہیں۔ آج بھی یہ خوشگوار حیرت دل میں ایک معصوم سا سوال جگاتی ہے، جو شاید کبھی حل نہ ہو، مگر اس کی چاشنی ہی لطف کا اصل سبب ہے اور چھلکوں میں دانہ ملنے کا لطف ہی الگ ہے، بچپن میں اکثر جب ہمارے گھر میں گاجر کا حلوہ دیگچیوں میں دھیمی آنچ پر ابلتا رہتا، کھرمنیاں اور خشک میوے کڑچھے کی ہر گردش کے ساتھ خوشبو بکھیرتے، اور امی کی آواز آتی “ذرا پیندا نہ لگنے دینا !”۔ باہر کی سرد ہوا اور کمرے میں پھیلی حلوے کی مہک مل کر ایک بے مثال سکون پیدا کرتی تھی۔ شکر قندی کا گرم گرم میٹھا جو اکثر اتوار کی صبح ناشتہ میں کھایا جاتا ایک الگ ہی لطف تھا، گاجر کا حلوہ ، گجک اور لچھے آج بھی سردیوں کی پہچان ہیں سادہ، خالص، اور دل میں اتر جانے والا ایک مشغلہ بھی۔۔
یہ ساری سوغاتیں آج بھی صرف لذت کا سامان نہیں بلکہ یادوں کے چراغ ہیں۔ یا ایسا سرمایہ جو وقت کے سفر میں کبھی ماند نہیں پڑتا۔ سردیاں آتی نہیں، بلکہ ہمیں بچپن کے اُس دروازے تک لے جاتی ہیں جہاں مونگ پھلی کے چند چھلکوں سے خوشی برآمد ہوتی تھی، جہاں گجک کی کرچ، حلوے کی خوشبو اور شکر قندی کی مہک زندگی کو مکمل کر دیتی تھی یہی وہ چاشنی ہے جو آج بھی ہماری روایات میں سانس لیتی ہے اور آنے والی نسلوں کو بھی اسی خوشبو میں لپیٹ کر رکھے گی اور ہاں آج اس عمر میں ہم کتنے بھی civilized کیوں نہ ہوگئے لحاف میں بیٹھ کر اس کے اوپر چھلکے بکھیرکے کھانا نہیں چھوڑ سکے ۔۔۔
Leave a Reply