rki.news
از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
قسط نمبر 1
برلن سے روانگی لفتھ ہنزا سے تھی اور لفتھ ہنزا کی برلن ائیرپورٹ پر سروس اور آن لائن چیک ان کے مسائل کے بعد لگ رہا تھا کہ کہیں سفر کا آغاز ہوپائے گا بھی یا نہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایک کے بعد ایک مسائل ختم ہوتے گئے اور سفر کی آسانیاں شروع ہونے لگیں ۔ برلن سے وقت پر لفتھ ہنزا کے ہوائی جہاز نے زمینی تعلق کو منقطع کیا اور ٹھیک 45 منٹ کی مختصر سی اُڑان کے بعد جہاز جرمنی کے صوبے باویریا کے سب سے امیر شہر میونخ میں اُتر گیا۔ چھوٹا سا جہاز اور مختصر ساسفر آرام سے گزر گیا اور اب شروع ہوا ایک طویل انتظار کہ پورے پانچ گھنٹے کے بعد ہمیں مزید آگے کی جانب سفر شروع کرنا تھا ۔ میونخ ائیرپورٹ جدید سہولتوں سے آراستہ اور برلن کے مقابلے میں کافی بڑا ہے ۔ اس لیے کچھ کھاتے پیتے اور عمان ائیر کے کاونٹر کے کھلنے کے انتظار میں وقت کٹ ہی گیا۔ عمان ائیر لائینز کے کاونٹر پر ایک بہت ہی دلربا مسکراہٹ سے ایک خاتون نے استقبال کیا تو لگ چکا تھا کہ تمام وہ سوالات جو برلن میں حل طلب تھے یہاں حل ہوجائیں گے اور ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے نہایت خلوص و محبت سے ہمارے سارے سوال کا نہ صرف خندہ پیشانی سے جواب دیا بلکہ مسائل کا حل بھی ڈھونڈ دیا اور ہمیں اپنے مطلب کی سیٹ بھی مل گئی۔
میونخ سے مسقط میں ایک بات تو مشترک تھی کہ دونوں ہی شہر کے نام اور کام میں حروف م کا بڑا عمل دخل ہے کہ دونوں ہی م سے شروع ہوتے ہیں اور دونوں ہی شہر مالی اعتبار سے بھی مضبوط و مشہور ہیں ۔
آجکل ایک بڑی بدقسمتی ہے کہ ہر جانب بچت کے نام پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانا لازمی جُز بن چکا ہے اور یہ کام اب صرف غریب ممالک ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ امیر ممالک کا بھی وطیرہ یہی بنتا جارہا ہے ۔ میونخ سے مسقط شہر کے چھ گھنٹے کے طویل مسلسل سفر کے باوجود عمان ، ایک امیر ترین ملک کی ائیر لائین نے ایک چھوٹے ہی جہاز کا انتخاب کیا جہاں مسافر از بر ہی سانس لیتے یا روکتے اپنا سفر کاٹ رہے تھے ۔ مزید یہ کہ عملے کے بھی صرف تین چار ہی لوگ نظر آئے جو پورے جہاز کے مسافروں کے لیے موجود تھے ۔ اس لیے یہ سوچنا کہ شاید وہ مہرباں پلٹ کر آئے گی اور پوچھے گی کہ اور چائے تو نہیں چاہیے ایک ایسی انہونی خواہش تھی جس کے پورے ہونے کا احساس نہ ہونے کے باعث ایسی کوشش بھی شاید ہی کسی نے کی ہوگی۔۔۔خیر سفر تو سفر ہے کٹ ہی جاتا ہے لیکن دوران سفر بھی بہت دلچسپ نظارے دیکھنے کو ملتے رہے ۔ میری سیٹ رو نمبر گیارہ میں تھی اور اُس سے پہلے دس نمبر رو کی کئی سیٹیں خالی تھیں۔ ایسا اکثر ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جہاز کے ٹیک آف کے بعد کچھ لوگ جو پھنسے بیٹھے ہوتے ہیں ایسے ہی سیٹ کی کسی رو کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہی ہوا جہاز ٹیک آف ہوا۔ سیٹ بیلٹ کی پابندی کی بتی بجھی تو ایسا لگا کہ کئی چہروں کی روشنی جل اُٹھی اور وہ اُس خالی سیٹ کے طرف لپکے ۔ پہلے ایک نوجوان خاتون نے جو اپنے پاؤں کو ٹھیک سے پھیلانے کی وجہ سے تکلیف میں تھیں لپک کر اگلی سیٹ پر جابیٹھیں۔ اور جلدی سے کمبل اوڑھ کر خواب میں خرگوش کے مزے لینا شروع ہوئی تھیں کہ ائیر ہوسٹس ملک الموت کی طرح سر پر آن کھڑی ہوئی اور اُن خاتون سے گویا ہوئی کہ اگر آپ کو اس سیٹ پر بیٹھنا ہے تو لائیے 95 ایور کیونکہ اس سیٹ کو صرف خرید کرہی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ خاتون نے بڑا برا سا منہ بنایا اور اپنی سیٹ پر واپس لوٹ گئیں۔ جہازمیں آگے کیا کچھ ہورہا تھا یہ خبر پیچھے والوں تک کہاں پہنچ پاتی ہے اس لیے اس سیٹ پر مزید دو لوگوں نے قبضے کی کوشش کی جو بے سود ہی رہی ۔ آخر والا تو اپنے موٹاپے کے باعث پیچھے سے سامنے کی جانب بھاگ کر آیا تھا اور سفر ختم ہونے میں بھی ایک گھنٹہ ہی بچا تھا لیکن اُس ظالم ائیر ہوسٹس نے اُس کی بھی ایک نہ سُنی اور اُسے بھی وہاں سے بھگا کر ہی دم لیا۔ میں سارا تماشا دیکھ رہا تھا کہ میں ہی اس سیٹ کے پیچھے بیٹھا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی اور سخت غصہ بھی آیا کہ آج کی یہ مادی دنیا کیسی بے حس ہوچکی ہے کہ سارے راستے اس خالی سیٹ کو اُس ائیر ہوسٹس نے اپنی ہٹ ڈھرمی کے باعث خالی ہی رکھا اور کسی بھی مسافر کی تکلیف کا کچھ بھی اثر نہیں لیا ۔ جب کوئی نیا مسافر کسی بھی طرح ہوا کے ذریعے تحلیل ہو کر جہازمیں داخل نہیں ہوسکتا تھا جو اس سیٹ کا مالک بنتا تو پھر اس حرکت کی کیا وجہ بنتی ہے ؟
مسقط میں ایک روزہ قیام اس لیے ان باتوں کی طرف سے توجہ ہٹا گیا کہ میں اپنے بھائیجان و بھابھی سےکوئی چار سال سے نہیں ملا تھا اور یہاں آنے کا ایک ہی مقصد تھا اور شکر ہے کہ یہ خواہش بہت ہی خوش کُن رہی ۔ بھائی جان نے مسقط کی خوب سیر ایک ہی دن میں کروادی اور پھر ڈنر میں خوب خاطر مدارت بھی ہوئی کہ حیدر آباد کی دم بریانی، پتھر گوشت اور دم قورمہ اور جانے کن کن لوازمات کے ساتھ ہماری میزبانی کی اللہ سلامت رکھے ہمارے خانودے کو آمین ۔ ۔۔ مسقط شہر شاید دنیا کا سب سے صاف ستھرا شہر ہے اور ابتک اُسی صفائی کا نمونہ پیش کررہا تھا جو 2012 میں تھا جب میں یہاں پہلے آیا تھا۔۔۔۔ (جاری ہے)
Leave a Reply