rki.news
قسط نمبر 2
ہم تیرے شہر میں آئے ہیں
از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مسقط کے سورج میں ایک خاص گرمی ہے شاید اُن کے یہاں مہمانوں کا اسی شدت سے استقبال کیا جاتا ہوگا لیکن سورج کی سختی بہت زیادہ تھی اور ایک لحمے بھی آپ اُس کی تپش برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے، اب ایسی بھی کیا گرمجوشی ۔ہم نے پھر بھی مسقط کی سخت ترین گرم دن میں اس شہر کی خوبصورتی دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ ہمارے پاس تو گنتی کے چند گھنٹے ہی تھے ۔۔۔۔۔
سلطنت عمان کا مسقط ایک متحرک دارالحکومت اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں بھرپور ثقافتی ورثے اور پرکشش مقامات ہیں، شاندار ساحلوں اور قدیم قلعوں کے ساتھ متحرک شامِ زندگی بھی ہے ۔ عمان ایک عظیم خوبصورتی اور تنوع کا ملک ہے، اور مسقط اس سب میں سب سے آگے ہے۔
عمان ثقافتی طور پر بھی کچھ مختلف ہے جہاں عربی سرکاری زبان ہے۔ تاہم، انگریزی، بلوچی، اردو، ہندی اور دیگر بولیاں بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہیں، جس کا خوبصورت منظر یہ ہے کہ لوگ مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ عمان میں سب سے بڑا نسلی گروہ عمانی عرب ہے، اس کے بعد ہندوستانی، پاکستانی، سری لنکا اور بنگلہ دیشی ہیں، جو ملک کو حقیقی معنوں میں ایک کثیر الثقافتی قوم بنانے میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔
عمان ایک مطلق بادشاہت کے زیر انتظام ملک ہے اور 1651 سے آزاد ہے، جب اس نے پرتگالی سلطنت سے آزادی حاصل کی تھی۔ یہ نظام حکومت صدیوں سے موجود ہے اور آج بھی رائج ہے۔ عمان ایک امیر تاریخ اور ثقافت والا ملک ہے اور بادشاہت اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ عمان کے موجودہ سلطان قابوس بن سعید السید 1970 سے برسراقتدار ہیں، جس کی وجہ سے وہ مشرق وسطیٰ میں سب سے طویل عرصے تک رہنے والے سربراہ مملکت مانے جاتےہیں۔
عمان ثقافتی ملک کے ساتھ ساتھ اسلامی ملک بھی ہے جہاں (عبادی مسلمان) رہتے ہیں ۔ تاہم، ملک میں بہت سے شیعہ اور سنی مسلمان، ہندو اور عیسائی بھی رہتے ہیں، جو اسے مختلف عقائد کے ساتھ تیار ہونے والا ایک بہت ہی خوبصورت برتن بنادیتے ہیں۔ اس ہم آہنگی کا یہاں بہت احترام کیا جاتا ہے، اور حکومت مذہبی رواداری اور افہام و تفہیم کو فعال طور پر فروغ دیتی ہے۔
مسقط کے ایک روزہ قیام کے بعد ہماری اگلی منزل اپنا شہر کراچی بنا۔ مسقط سے ایکبار پھر عمان ائیر لائین کے جہاز میں بیٹھے تو اس بار حالت قدرے بہتر تھی کہ آدھا جہاز خالی تھا اور کہیں بیٹھنے کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ سمندر کے کنارے کنارے اُڑتے جہاز پلک جھپکتے ہی کراچی کی ففا میں داخل ہوگیا۔ ابھی تو سفری میزبان نے اورنج جوس کا گلاس مکمل ہی بھرا تھا کہ کپیٹن نے کراچی آمد اور کرچی میں اُترنے کا بگل بجا دیا۔ یاد رہے کہ یہاں کسی ایک مسافر کے گلاس کی بات نہیں ہے بلکہ تمام مسافروں کی ۔۔۔۔کراچی آمد پر فوری طور پر غلام علی کی آواز کی ایک خوبصورت غزل یاد آگئی
Leave a Reply