rki.news
(تحریر احسن انصاری)
سلطان محمد الفاتحؒ تاریخِ اسلام کے اُن عظیم حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے دنیا کے سیاسی، عسکری اور تہذیبی نقشے پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جنہیں صدیوں گزر جانے کے باوجود مٹایا نہیں جا سکا۔ وہ عثمانی سلطنت کے ساتویں سلطان تھے، مگر ان کی شخصیت اور کارنامے اس طرح نمایاں ہوئے کہ انہیں تاریخ کے سب سے بڑے عالمی لیڈروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ ان کی زندگی جہدِ مسلسل، علم، تدبر اور حکمتِ عملی کا امتزاج تھی۔ وہ نہ صرف فاتح تھے بلکہ ایک ماہر منتظم، ذہین مدبر، صاحبِ علم شہنشاہ اور اسلامی دنیا کے محافظ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
سلطان محمد الفاتحؒ کی ابتدائی زندگی نہایت مضبوط تربیت میں گزری۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی نے انہیں بچپن سے ہی نہ صرف دینی اور دنیاوی علوم پڑھوائے بلکہ عسکری تربیت بھی دی۔ یہی وجہ ہے کہ کم عمری ہی میں وہ سات زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے، جن میں عربی، فارسی، یونانی، لاطینی اور دیگر اہم زبانیں شامل تھیں۔ اس علمی صلاحیت نے انہیں بین الاقوامی سیاست اور دشمنوں کی نفسیات کو سمجھنے میں بے مثال قوت عطا کی۔ ان کی شخصیت میں جہاں ایک عالم کی گہرائی تھی وہیں ایک سپہ سالار کی جرات بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔
1451ء میں جب وہ صرف 19 برس کے تھے، انہیں سلطنتِ عثمانیہ کی کمان سونپ دی گئی۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج وہی تھا جو کئی صدیوں سے مسلمانوں کی خواہش اور یورپ کی پریشانی بنا ہوا تھا—قسطنطنیہ کا عظیم شہر جو تقریباً ہزار سال سے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ کئی مسلمان حکمران اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کر چکے تھے لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم سلطان محمد الفاتحؒ نے حوصلہ، حکمت اور سائنسی حکمتِ عملی استعمال کرتے ہوئے 1453ء میں صرف 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ یہ فتح نہ صرف عسکری تاریخ بلکہ دینی تاریخ کا بھی سب سے بڑا واقعہ تھی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شہر کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ “کس قدر بہترین ہو گا وہ امیر اور وہ فوج جو اسے فتح کرے گی۔”
قسطنطنیہ کی فتح نے یورپ کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا۔ سلطان نے اس شہر کو نئی زندگی دی، آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کیا اور شہر کی تعمیر و ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ قسطنطنیہ کو نئے اسلامی رنگ میں ڈھال کر انہوں نے اسے ’’اسلامبول‘‘ یعنی اسلام کا شہر بنا دیا، جو آج ’’استنبول‘‘ کے نام سے دنیا کے عظیم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد الفاتحؒ ایک لمحے کے لیے بھی رکے نہیں۔ وہ ایک جگہ فتح کے بعد آرام کرنے والے سلطان نہیں تھے بلکہ وہ جانتے تھے کہ عالمی طاقتیں ایک عظیم اسلامی حکومت کو مضبوط دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ اس لیے انہوں نے مسلسل فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے صربیا، بوسنیا، ہرزگووینا اور پورے البانیہ کو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ یہ فتوحات صرف جنگی کامیابیاں نہیں تھیں بلکہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں میں عدل، ترقی اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا، جس کی بدولت لوگ ان سے محبت کرنے لگے۔
سلطان محمد الفاتحؒ کے 30 سالہ دورِ حکومت (1451–1481) میں سلطنتِ عثمانیہ کا رقبہ 900 ہزار مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 2.24 ملین مربع کلومیٹر تک پہنچ گیا۔ اس قدر وُسعت کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کی پالیسی، انتظامی صلاحیت اور مضبوط عسکری حکمتِ عملی کی دلیل تھی۔ وہ جنگوں میں ہمیشہ آگے رہ کر قیادت کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 30 سال میں 25 بڑی جنگوں کی قیادت خود کی، جو کسی بھی سلطان کی زندگی میں ایک غیر معمولی بات ہے۔
دوسری طرف یورپ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف زدہ ہو چکا تھا۔ تقریباً 20 یورپی ممالک نے اکٹھے ہو کر ایک عظیم صلیبی اتحاد بنایا تاکہ عثمانی سلطنت کو روکا جا سکے۔ پوپ نے یہاں تک اعلان کیا کہ جو شخص اس صلیبی جنگ میں شریک ہو گا اس کے گناہ چھ ماہ کے لیے معاف کر دیے جائیں گے۔ لیکن سلطان محمد الفاتحؒ نے سولہ سال تک اس صلیبی اتحاد کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور ان کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ ان کی فوجی ذہانت اور جنگی حکمت عملی یورپ کے لیے ناقابلِ فہم تھی، اسی لیے وہ سلطان کو “بڑا عقاب” کہا کرتے تھے—وہ عقاب جس کی پرواز کو روکنا ممکن نہیں تھا۔
سلطان کی بڑھتی ہوئی کامیابیاں دشمنوں کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتی گئیں۔ اس لیے ان پر ایک دو بار نہیں بلکہ چودہ مرتبہ قاتلانہ حملے کیے گئے۔ ہر بار اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ ہر سازش ناکام ہوئی، لیکن دشمنوں کی نفرت اور سازشیں کم نہ ہوئیں۔ آخر کار پندرہویں کوشش سب سے خطرناک ثابت ہوئی۔
ان کے ایک یہودی معالج یعقوب نے ان کے کھانے میں زہر شامل کردیا۔ سلطان محمد الفاتحؒ نے کچھ ہی دنوں میں شدید کمزوری محسوس کی اور 2 فروری 1481ء کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ان کی وفات یورپ کے لیے گویا ایک جشن کا موقع تھی۔ کلیساؤں کی گھنٹیاں تین دن تک بجتی رہیں اور پوپ نے اعلان کیا کہ ’’بڑا عقاب مر گیا!‘‘
یہ الفاظ دشمن کے تھے، لیکن ان میں سلطان کی عظمت کا اعتراف چھپا ہوا تھا۔ ایسی تعریف دشمن کی زبان سے ہی نکلتی ہے، دوست کی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سلطان محمد الفاتحؒ کی وفات کے کئی صدیاں بعد بھی دنیا ان کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے۔ 2004ء میں برطانوی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ نے دنیا کی 30 عظیم ترین شخصیات کی فہرست بنائی جس میں صرف ایک مسلمان شخصیت شامل تھی—اور وہ تھے سلطان محمد الفاتحؒ۔
یہ انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف ایک جنگجو نہیں بلکہ عالمی سطح کے لیڈر تھے جنہوں نے دنیا کی سیاست، جنگی حکمت عملی اور تہذیبی نقشہ بدل دیا۔
سلطان محمد الفاتحؒ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ جتنے بڑے فاتح تھے اتنے ہی بڑے منتظم بھی تھے۔ انہوں نے مفتوحہ علاقوں میں عدل قائم کیا، انصاف پر مبنی نظام بنایا، تعلیم کو فروغ دیا اور ریاست کے انتظام کو منظم ترین بنیادوں پر استوار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے کئی صدیوں بعد بھی سلطنت عثمانیہ دنیا کی بڑی طاقت بنی رہی۔
اختتام کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سلطان محمد الفاتحؒ نہ صرف قسطنطنیہ کے فاتح تھے بلکہ اسلامی تاریخ کے ایک عظیم ترین معمار بھی تھے۔ ان کی فتوحات، ان کی ذہانت، ان کی حکمتِ عملی اور ان کی شہادت آج بھی مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ مضبوط ایمان، علم اور عزم انسان کو وہ مقام دے سکتا ہے جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ سلطان محمد الفاتحؒ کا نام قیامت تک ایک عظیم فاتح اور اسلام کے محافظ کے طور پر زندہ رہے گا۔
Leave a Reply