Today ePaper
Rahbar e Kisan International

*سمندر کی گہرائی: ایک ایسی دنیا جو خلا سے بھی زیادہ پراسرار ہے*

Articles , Snippets , / Tuesday, February 11th, 2025

(منقول احسن انصاری)

سمندر کتنا گہرا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے؟ جب کہ بہت سے لوگ خلا کی وسعتوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں، بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں کو تلاش کرنا خلا میں جانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چاند، مریخ یا یہاں تک کہ دور دراز سیاروں تک پہنچنا بھی سمندر کی گہرائی میں اترنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں: بے پناہ گہرائی، شدید دباؤ، اور مکمل اندھیرا۔

دنیا کا سب سے طویل پہاڑی سلسلہ ہمالیہ، ایلپس، اینڈیز یا مارگلہ نہیں بلکہ مڈ-اٹلانٹک رِج ہے، جو مکمل طور پر سمندر کے نیچے واقع ہے۔ البتہ، اس زیرِ آب پہاڑی سلسلے کی سب سے بلند چوٹی سمندر سے باہر نکلی ہوئی ہے اور یہی آئس لینڈ نامی ملک کی بنیاد بنی۔ پانی کے نیچے ایسے کئی عجائبات چھپے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں ہمیں علم تک نہیں، لیکن یہ سب سمندر کی گہرائی میں موجود ہیں اور دریافت کیے جانے کے منتظر ہیں۔

روشنی کی موجودگی کے لحاظ سے سمندر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب سے اوپر کا حصہ سورج کی روشنی والا زون یا ایپی پلیجک زون کہلاتا ہے، جو 200 میٹر کی گہرائی تک پھیلا ہوتا ہے۔ یہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہے، جس کی بدولت سمندری حیات پروان چڑھتی ہے۔ زیادہ تر آبی مخلوق جیسے مچھلیاں اور مرجان کی چٹانیں اسی علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ اس سے نیچے نیم روشن زون یا میسو پلیجک زون واقع ہے، جو تقریباً ایک کلومیٹر کی گہرائی تک پھیلا ہوتا ہے۔ یہاں روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نیلے رنگ کی ہلکی روشنی میں ہر چیز ڈوبی ہوتی ہے۔ زمین پر جتنا زیادہ اندھیرا ہو سکتا ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے، لیکن سمندر کی اصل تاریکی کا یہ صرف آغاز ہے۔ اس کے بعد مکمل تاریکی والا زون آتا ہے، جسے بیتھی پلیجک اور ایبیسل زون بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک کلومیٹر سے دس کلومیٹر کی گہرائی تک پھیلا ہوتا ہے، جہاں مکمل اندھیرا چھایا رہتا ہے، جو انسانی تصور سے بھی باہر ہے۔ یہاں روشنی کا واحد ذریعہ آبدوزوں کی کمزور روشنیاں ہوتی ہیں، جو زیادہ فاصلے تک نہیں جا سکتیں کیونکہ سمندر کا گہرا اندھیرا انہیں فوراً جذب کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹائیٹینک کے ملبے کو دیکھنے والی آبدوزیں تب تک اسے نہیں دیکھ سکتیں جب تک وہ اس کے انتہائی قریب نہ پہنچ جائیں۔ ٹائیٹینک کی باقیات 3.8 کلومیٹر کی گہرائی میں موجود ہیں، جو تقریباً 4.5 برج خلیفہ کے برابر ہے یا یوں کہہ لیں کہ دیوسائی کی بلندی کے برابر گہرائی میں ہے۔ اس سے بھی نیچے بحرالکاہل میں چیلنجر ڈیپ موجود ہے، جو دنیا کا سب سے گہرا مقام ہے اور 11 کلومیٹر گہرائی میں ہے۔

سمندر کی کھوج میں سب سے بڑی رکاوٹ اندھیرا نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہاں کوئی GPS یا سیٹلائٹ سگنل نہیں پہنچ سکتا۔ خلا میں موجود خلاباز زمین سے رابطہ کر سکتے ہیں، لیکن سمندر کی گہرائی میں ایسا ممکن نہیں۔ اگر کوئی سمندر میں گم ہو جائے، تو وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک خلا میں زیادہ لوگ جا چکے ہیں لیکن سمندر کی گہرائیوں تک پہنچنے والے انسانوں کی تعداد بہت کم ہے۔

سمندر کے خوفناک پہلوؤں میں سے ایک شدید دباؤ بھی ہے۔ سطحِ سمندر پر، ہوا ہمارے جسم پر فی مربع انچ تقریباً سات کلوگرام کا دباؤ ڈالتی ہے۔ چونکہ یہ دباؤ ہر طرف سے یکساں ہوتا ہے، اس لیے ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر، ہمارا جسم تقریباً ایک ہزار کلوگرام دباؤ برداشت کر رہا ہوتا ہے، جسے ایک ایٹموسفیر پریشر کہا جاتا ہے۔ لیکن پانی ہوا سے کہیں زیادہ گھنا ہوتا ہے، اس لیے جیسے جیسے گہرائی میں جاتے ہیں، دباؤ تیزی سے بڑھتا ہے۔ ہر دس میٹر کی گہرائی پر دباؤ دگنا ہو جاتا ہے۔ 100 میٹر پر یہ دباؤ دس گنا بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے انسانی پھیپھڑے خطرناک حد تک سکڑ جاتے ہیں۔ ایک کلومیٹر کی گہرائی پر دباؤ 100 گنا زیادہ ہو جاتا ہے، یعنی جسم پر 1 لاکھ کلوگرام کا دباؤ پڑنے لگتا ہے۔

ٹائیٹینک کی گہرائی پر، جو 3.8 کلومیٹر ہے، ہر مربع انچ پر تین ٹن دباؤ ہوتا ہے۔ اگر آبدوز صحیح مواد سے نہ بنی ہو، تو اس گہرائی میں پہنچتے ہی دو ملی سیکنڈ میں تباہ ہو جائے گی۔ انسانی جسم تو اس دباؤ کو برداشت کر ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ فوراً دب کر ایک انچ کی ڈلی میں تبدیل ہو جائے گا۔ اگر اس گہرائی میں کسی آبدوز کو حادثہ پیش آ جائے، تو اس کے مسافروں کو یہ احساس تک نہیں ہو پاتا کہ وہ مرنے والے ہیں، کیونکہ موت لمحہ بھر میں آ جاتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح مرنے والے افراد درد یا خوف کا سامنا نہیں کرتے، لیکن اس حقیقت کو صرف اللہ اور وہی جانتے ہیں جو اس آزمائش سے گزرے ہیں۔

براعظمی شیلف سے آگے کھلے سمندر کی اوسط گہرائی تقریباً 6 کلومیٹر ہوتی ہے۔ تاہم بحرالکاہل میں کچھ مقامات 11 کلومیٹر تک گہرے ہیں، جہاں میریانہ ٹرینچ واقع ہے۔ ٹائیٹینک فلم کے ہدایت کار جیمز کیمرون وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اس کی سب سے گہری سطح تک تنہا غوطہ لگایا تھا۔ اگر ماؤنٹ ایورسٹ کو اس میں رکھا جائے، تو وہ مکمل طور پر ڈوب جائے گا، بلکہ اس پر بھی دو کلومیٹر پانی موجود ہوگا۔ اگر آپ آسمان میں ہوائی جہاز کو سفید لکیر چھوڑتے دیکھتے ہیں، تو وہی فاصلہ سمندر میں نیچے جانے پر موجود بحری جہازوں کا ہوگا۔

سمندر ایک ساکن پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک مسلسل متحرک ماحول ہے، جہاں زبردست بحری روئیں چلتی ہیں۔ ان کی رفتار 3 کلومیٹر فی گھنٹہ سے لے کر 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی جہاز تباہ ہو جائے یا کوئی چیز گم ہو جائے، تو یہ بحری روئیں اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں، اور اکثر اوقات مسافروں کو اس کا اندازہ تک نہیں ہو پاتا۔ یہ غیر یقینی صورتحال سمندر کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے۔

انسانی جسم کی کثافت تقریباً سمندر کے پانی کے برابر ہوتی ہے، اس لیے جب تک کوئی سطح کے قریب رہے، وہ بچ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی زیادہ گہرائی میں چلا جائے، تو دباؤ کی شدت کی وجہ سے اس کا جسم آہستہ آہستہ دب کر زیادہ گھنا ہو جاتا ہے۔ جب جسم پانی سے زیادہ گھنا ہو جاتا ہے، تو وہ سمندر کے فرش تک مسلسل ڈوبتا چلا جاتا ہے اور واپس سطح پر نہیں آ پاتا۔

جب ہم ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں اس کی اصل حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس کے اصل راز گہرائی میں چھپے ہوئے ہیں، جہاں اندھیرا اور دباؤ انسانی برداشت سے کہیں زیادہ ہے۔ سمندر بے شمار حیرتوں کا خزانہ ہے، لیکن انہیں جاننے کے لیے انسان کو گہرائی میں اترنے کا حوصلہ چاہیے۔ کیا آپ کبھی سمندر کی گہرائی میں جانے کا خواب دیکھتے ہیں؟


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International