Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سوات دریا کا سانحہ, 14 قیمتی جانوں کا ضیاع اور کئی سوالات

Articles , Snippets , / Sunday, June 29th, 2025

rki.news

تحریر احسن انصاری

دو روز قبل سوات میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب پانجگوڑہ دریا کے قریب اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے 14 قیمتی جانوں کو نگل لیا۔ یہ سانحہ 27 جون 2025 کی صبح اس وقت پیش آیا جب ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے دو خاندان سیر و تفریح کے دوران دریا کے کنارے ناشتہ کرنے اور تصاویر لینے کے لیے رُکے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ چند لمحوں بعد پانی کا ایک ہولناک ریلا ان کی زندگیاں چھین لے گا۔ مقامی افراد اور ریسکیو ٹیموں نے دن رات کی مسلسل کوششوں سے تمام لاشیں نکال لیں۔

یہ سانحہ پورے ملک کو سوگوار کر گیا۔ جاں بحق افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جن کی نمازِ جنازہ ڈسکہ میں ادا کی گئی۔ اسے رواں سال کا سب سے دلخراش واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس واقعے کا المیہ صرف جانوں کے ضیاع میں نہیں بلکہ اس بات میں بھی ہے کہ اگر بہتر حکمت عملی، بروقت وارننگ اور مؤثر ریسکیو سسٹم موجود ہوتا تو شاید یہ نقصان ٹالا جا سکتا تھا۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے سے قبل سیلاب کے خطرے سے متعلق اعلانات کیے گئے تھے۔ مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر وارننگ دی گئی اور میڈیا کے ذریعے بھی تنبیہات جاری کی گئیں کہ شہری دریا کے قریب جانے سے گریز کریں۔ لیکن سیاحوں نے ان ہدایات کو نظر انداز کیا اور دریا کے بیڈ پر جا کر تصاویر لینے لگے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں کوئی واضح سائن بورڈ، حفاظتی باڑ یا رکاوٹ موجود نہیں تھی جو سیاحوں کو روک سکتی۔

مقامی انتظامیہ اس واقعے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہے۔ ریسکیو ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں اور ابتدائی طور پر کوئی کشتی، ہیلی کاپٹر یا ریسکیو کا ضروری سامان موجود نہ تھا۔ اس تاخیر کو ہلاکتوں کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سوات اور ڈسکہ میں عوام نے صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

عوامی دباؤ کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے چار اعلیٰ افسران کو معطل کر دیا جن میں ڈپٹی کمشنرز اور ریسکیو 1122 کے متعلقہ افسران شامل ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اگرچہ یہ اقدامات ایک رسمی تسلی کی کوشش ہیں، لیکن وہ ان خاندانوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے جنہوں نے اپنے پیارے اس سانحے میں کھو دیے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ سیاحتی مقامات پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہمارا نظام نہایت کمزور ہے۔ اگر وارننگ سسٹمز فعال ہوتے، حفاظتی باڑیں لگائی جاتیں اور ریسکیو ٹیمیں پیشگی تعینات ہوتیں تو اتنے بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔

سیاحوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنی ہوں گی۔ مون سون کے موسم میں دریا کے قریب جانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ قدرت کا مزاج بدلتے دیر نہیں لگتی، اور ایک لمحے کی غفلت زندگی کو موت میں بدل سکتی ہے۔

سوات دریا کا یہ سانحہ صرف ایک المیہ نہیں بلکہ ایک تلخ سبق ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جہاں قدرتی خوبصورتی ہے، وہیں خطرات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے سیاحوں اور حکام دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ سخت قوانین، بروقت وارننگ سسٹم، مؤثر ریسکیو نظام، اور عوامی شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے تاکہ ہم اپنے سیاحوں کو محفوظ بنا سکیں۔ یہی طریقہ ہے کہ ہم مستقبل میں ایسے سانحات سے بچ سکیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International