تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

سوشل میڈیاپرفارغین مدارس کی دست و گریبانی

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Saturday, February 3rd, 2024

ندیم ماہرؔ

 منصب،شہرت اور دولت کا حاصل ہوجانا یہ اللہ کا انعام ہے اور یہ انعام جن لوگوں کو مل جاتاہے وہ خوش قسمت ہیں۔ لیکن ایک بنیادی بات یہ ہے کہ آپ اُن انعامات کے حاصل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کس درجے میں رکھتے ہیں۔آیا آپ مغرور ہوگئے ہیں؟کہیں تکبّر کا شکار تو نہیں ہوگئے ؟یا پھر آپ کے مزاج میں انکسار آگیا ہے؟۔یہ وہ سوال ہیں جو ایک عقل مند انسان اور خاص طور پر ایک عالِم کو اپنے آپ سے کرنے چاہئیں۔کیونکہ ہمارے مخاطب طبقہئ علماء ہیں۔لہذا ان سطور میں ہم صرف اسی طبقے سے مخاطب ہیں جو فارغین مدارس ہیں۔
علماء وارثان ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔لوحِ محفوظ سے سمائے دنیا اور پھر حضرت جبرئیل کے ذریعہ”وحی“ اللہ کے پیارے حبیب محمد عربی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور پھر صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پھر تابعین تبع تابعین سے ہوتا ہوا یہ علم وعمل کا سلسلہ علمائے کرام تک آتا ہے۔قیامت تک دین کے جس تحفظ کا قرآن مجید میں وعدہ فرمایا گیا ہے اس میں علماء کا حصہ اور کردار بہت اہم ہے۔اس لیے اس طبقے کو “وارثانِ انبیاء” سے ملقّب کیا گیا۔
مولوی،مولانایہ وہ القاب ہیں جواہلِ عرب میں پہلے استعمال نہیں ہوئے، بلکہ ترکوں سے درآئے یہ القاب علوم قرآنی اور علوم نبویہ کے ماہرین کے لیے یا پھر صوفیاء کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ برِصغیر میں ایران،ترک اور پھر مغل سے ہوتی ہوئی یہ اصطلاح آج اس شکل میں رائج ہیں، ورنہ عرب میں شیخ اور استاذکی اصطلاح عام تھی،لبِ لباب یہ کہ جو لوگ دیندار اور ماہرین علوم وفنون ہوتے تھے اِن امتیازی القاب سے ان کی شان امتیازی برقرار رکھی جاتی تھی۔ایک زمانہ تھا جب علماء درباروں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ ہوتے تھے۔مدارس کے باضابطہ آغاز کے بعد یہ اصطلاح عام بھی ہوئی اور علماء سرکاری درباروں، سرکاری اداروں یا پھر خانقاہوں سے یا پھر یوں کہئے جب علم اور علماء خواص سے نکل کر عوام تک پہنچے تو جہاں اس کی افادیت عام ہوئی وہیں اس کا معیار وہ نہیں رہا جو مطلوب تھا یا پھر اُس دَور میں تھا۔ایک دَور میں کسی ایک شہر میں ایک یا دو عالم ِ دین ہواکرتے تھے جو کہ عوامی استفادے اور استفتا کے کام آتے تھے مگر دِھیرے دِھیرے بستیوں میں مساجد اور علماء کی تعداد بڑھتی چلی گئی،کثرت تو ہوئی لیکن معیار متاثر ہوتا چلا گیا۔
ہمارا مقصدِ تحریر اُس طبقہئ علماء کا حالیہ سائنس اور ترقی کے دور میں رویہ (اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اوراس کے استعمال میں ہونے والی کوتاہیاں اور فتنوں کے اِس دور میں کس طرح اس سوشل میڈیا جیسے اژدہے کے زہر سے بچا جائے) ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے ”کفی بالمرء کَذِبًا أن یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ“ ترجمہ:”آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سُنی ہوئی بات کو نقل کردے“۔ اس حدیث کی کسوٹی پر اگر پرکھا جائے تو سوشل میڈیا نے ہمارے اندر سے اس برائی اور کسی بھی خبر کی تحقیق کے عمل کو ختم کردیا ہے۔ کوئی بھی پوسٹ آئی فوراً شیئر کی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بڑی تشویش اہل علم (دیندار حضرات) کی جانب سے بھی دیکھی اور سُنی جا رہی ہے۔مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ مدرسے کے محدود ماحول سے نکل کرجب اِس اتھاہ مادّی سَمُندر میں غوطہ خوری کے لیے نکلتے ہیں تو حیرت اور دنیاوی علوم سے کم آگاہی اُن کے لیے ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ہم نے اکثر فیس بک اور وہاٹس ایپ پر دیکھا ہے کہ کسی عالمِ دین یا کسی دینی تنظیم یا ادارے کے بارے میں اگر کسی نے کوئی رائے پیش کی یا کوئی پوسٹ شیئر کی جس سے وہ متفق نہ ہو تو ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجاتاہے۔ایسی مغلظات آپس میں یہ نام نہاد علماء حضرات کرتے ہیں کہ اللہ بچائے۔ حالانکہ ان حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان تمام پوسٹ پر نظر رکھّی جاتی ہے۔ اِن کو عوام الناس بھی پڑھتے ہیں، ایک تو ویسے ہی علماء کا طبقہ طعن و تشنیع کاہدف رہتا ہے اور اوپر سے ہم اِن مخالفین کو اس قسم کا مواد فراہم کردیں،کہاں کی عقل مندی ہے اور خاص طور سے ہمارے ملک میں اس وقت حالیہ سیاسی منظرنامہ ہمارے حق میں نہیں ہے بلکہ ہماری چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں بڑے جرائم بتا کر پیش کی جاتی ہیں۔
ان علماء کی جنگ میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء، مظاہرالعلوم (سہارنپور) جیسے دیگر عالمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ ، سینئر فارغین خوب حصہ لیتے ہیں۔ خاص طور پر خلیج میں مقیم اس طبقے کے لوگ شدید لہجے کا استعمال کرتے ہیں۔ مَیں تمام لوگوں کی بات نہیں کررہا، خود میرا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے لیکن معاف کیجئے یہ مرض اس وقت علماء کی ایک کثیر تعداد کو اپنے گِرِفت میں لے چکا ہے۔
حضرت مولانا رابع حسنی ندویؒ،حضرت مولانا ارشد مدنی، حضرت مولانا سلمان حسنی ندوی،مولانا محمود مدنی کے سِوا مسلم پرسنل لاء بورڈ،جمعیۃ علمائے ہند، تبلیغی جماعت،جماعت اسلامی ہند،جمعیت اہل حدیث یہ کچھ نمونے کے طور پر شخصی وجماعتی موضوعات ہیں جو مولویوں کے فیس بک اور وہاٹس ایپ پر دلچسپی کے باعث بنے رہتے ہیں اور چند معتقدین وناقدین ایک دوسرے سے دست وگریباں رہتے ہیں۔حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی موضوعِ گفتگو رہتے ہیں۔
کیونکہ راقم بھی خلیج میں گزشتہ چوبیس سال سے مقیم ہے، اکثر دیکھا ہے کہ یہاں پر یہ طبقہئ علماء (فارغین مدرسہ)خواہ وہ کسی بھی مشرب یا مسلک سے ہوں،اُن میں ”تنقید“ کرنے کی ایک بُری لَت پڑجاتی ہے۔جہاں ہمارے ملکوں(ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش،نیپال وغیرہ) میں کسی مسئلے پر کوئی بات ہوئی یا مدرسوں میں کوئی مسئلہ درپیش ہوا، فوراً اُس قبیلہئ خلیج(علمائے گلف) کی جانب سے یلغار و رائے زنی شروع ہوجاتی ہے۔کیونکہ یہ طبقہ خوش فہمی میں مُبتلا ہے کہ وہ بے انتہا لائق وفائق اور قابل ترین ہے اور سونے پر سہاگہ وہ ”ساکنِ خلیج“ہے۔ وہ فوراً مدارس کے تعلیمی و تدریسی نظام،اہتمام وانتظام وانصرام پر نکتہ چینی شروع کردیتا ہے۔اپنے اِس دعوے کے ساتھ کچھ دُم بریدہ اصلاحی تجاویز ات بھی سپرد قرطاس وقلم کی جاتی ہیں اور ان رشحاتِ قلم کو فیس بُک اور وہاٹس ایپ پر ڈال کر خود ایئر کنڈیشن میں سوجاتے ہیں۔ کیونکہ صبح ان کو ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے۔
میرا مقصد تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ آپ کا فریضہ ہے کہ اگر مدارس کے نظام تعلیم یا دیگر امور میں کوئی چیز قابل توجہ ہو تو اس ادارے کے ذمہ داران کے گوش گزار کریں لیکن عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر اس قسم کی تحریر کو شیئر یا نشر کرنا نہ تو مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی اس انداز میں مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ بلکہ اس طبقے کی جانب سے جو لہجہ اورطرزِ تحریر عمل میں آتا ہے وہ اور بھی تکلیف دِہ ہوتا ہے۔بسا اوقات اس قطع وبُرید میں بھی علاقائیت اور نظریات پسِ پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔جب کہ نصیحت کرنے کے اصولوں میں ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ مخاطَب پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اُسے موقع دیا جائے اور ہمیشہ گفتگو میں میانہ روی اختیار کی جائے، مُدلّل گفتگو کی جائے اور مخاطب کی تذلیل مقصد نہ ہو, لیکن ہمارے عمومی مباحثے اس روح سے خالی ہوتے ہیں۔
یہاں ایک اور بنیادی نکتے کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ”اختلاف رائے کامقصد ہتک یا مخاطب کی تذلیل نہیں ہوا کرتا“۔ مثلا اگر آپ میری رائے سے اتفاق نہیں رکھتے تو یہ آپ کا حق ہے، لیکن اگر مَیں آپ کی رائے کے اختلاف کو اپنے لیے باعثِ تذلیل سمجھ لوں تو یہ میری کم علمی اور عدم برداشت پر محمول کیا جائے گا۔کیونکہ مکالمہ نہ مجادلہ ہے نہ مناظرہ بلکہ وہ تو مباحثہ بھی نہیں ہے۔ خیر سگالی کے ماحول میں حلم وتدبّر اور فراستِ ایمانی کے ساتھ مخاطب کو سننا اور ایک دَم اس پر ردِ عمل نہ دینا یہ بیدار مغز اور زندہ قوموں کی علامت ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ جوہر دھیرے دھیرے ہم مدارس کے طلبہ واساتذہ کے اندر سے ختم تو نہیں کم ضرور ہوتا جارہا ہے۔
حالانکہ اللہ تعالی نے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے علمائے کرام کو آسانی کے ساتھ عوام الناس کے دلوں میں اُترنے کا موقع فراہم کیا ہے۔مکالمے کے لیے ایک بہترین اور عوامی اسٹیج ہمارے درمیان تیار ہے، لیکن کم علمی اور کم آگاہی کی وجہ سے اِس مادّی قوت سے بھرپور طور پر استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔ویسے مدارس کو اب ”سوشل میڈیا“ کو بحیثیت مضمون شامل درس کرنا چاہئے۔ مستقبل قریب میں اگر نیا خون بیدار مغزی کے ساتھ اور وسعت مشربی کو شعار بنا کر آگے بڑھے تو یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سوشل میڈیا دین کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔فی الحال تو یہ اِس طبقے کے لیے بس وقت گذاری اور ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے سے زیادہ کچھ نہیں۔
٭٭ ٭٭
❄️ندیم ماہرؔ
پوسٹ بکس نمبر:47284
دوحہ،قطر
mahirnadeem@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International