آج صبح ہی سے گھر میں کچھ زیادہ ہی چہل پہل دیکھنے میں آرہی تھی۔ اماں نے ہم سے اور منجھلے بھائی کو بتادیا تھا کہ شام میں کچھ مہمان آرہے ہیں شرارتیں مت کرنا ۔ منجھلے بھائی ہم سے ساڑھے تین سال بڑے تھے اسی حساب سے عقل بھی بھی زیادہ تھی۔ اماں کی بات سن کر مسکرانے لگے۔ الگ لیجا کر کہنے لگے کہ آج ہم مسلمان ہوں گے۔۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔۔ مسلمان کتنی بار ہوں گے۔ پیدائش کے وقت چھوٹے بھائی کے کانوں میں اذان و اقامت دیتے وقت بتایا تھا کہ یہ مسلمان کرنے کے لیے ہے۔ دوسری بار بسم اللہ پڑھاتے وقت مولوی صاحب نے بتایا آج سے تم پکے پکے مسلمان ہوگئے۔ اب یہ تیسری بار کون سا مسلمان ہونے جارہا تھا۔ سہ پہر ہی سے مہمان آنے شروع ہوگئے۔۔ مہمان کیا یہی خاندان کے چار پانچ بزرگ۔
مغرب سے ذرا پہلے مرغیوں کو بند کرنے کے لیے جو بڑا سا ٹوکرا تھا وہ آنگن میں لاکر الٹا رکھ دیا گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں بڑے بھیا محلے کے نائی شمسو کو لے آئے۔۔
منجھلے بھائی کو ابا نے الٹے ٹوکرے پر لا بٹھایا۔ انہوں نے صرف قمیص پہنی ہوئی تھین میری حیرت کی انتہا نہ رہی یہ دیکھ کر۔ منجھلے بھیا بالکل چپ تھے۔ ابا نے انہیں پکڑا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا غالباً وہ جانتے تھے۔ شمسو نائی نے اپنی جیب سے استرا نکالا ، منجھلے بھیا کے قریب آکر کہنے لگا بھیا وہ دیکھو آسمان پر سونے کی چڑیا ۔ بھیا نے کہاں، کدھر کہتے ہوئے گردن اٹھائی ہی تھی کہ ان کی سونے کی چڑیا اُڑ گئی۔ ساتھ ہی بیساختہ بلند ہونے والی چیخوں نے ہمیں دہلا دیا۔ ابا بھیا کو گودی میں لے کر زنان خانے میں جاچکے تھے۔۔ہم اب سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ شمسو نائی نے ہمیں بھی روائیتی سونے کی چڑیا دیکھنے کا لالچ دیا تو ہم نے بڑے غصے سے کہا وہ تو اُڑ گئی۔ شمسو نائی ہماری سنی ان سنی کرتے ہوئے نہایت مہارت سے اپنا کام کرگزرا۔ رات گئے تک مہمانوں کا آنا جانا لگا رہا اور ہمیں نئے نئے کرارے نوٹوں کی خوشبو مسحور کرتی رہی۔ کاش ہمیں اتنی سمجھ ہوتی تو ان پیسوں سے اسوقت سونے کی حقیقی چڑیا خرید سکتے تھے۔۔ آج اس گرانی کے دور میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سونے کی چڑیا تو اب آنے سے رہی۔
“ایں خیال است و محال است و جنوں”۔(جاری ہے)
Leave a Reply