Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سَنّاٹے میں چھپا شور

Articles , Snippets , / Wednesday, March 26th, 2025

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ احاطہ عدالت میں ایک فریق نے دوسرے فریق کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ، اور لاش انصاف کا منہ چڑانے کے لئے وہیں چھوڑ کر فرار ہو گئے ۔ اس انتہائی قدم کیوجہ عدالت پر عدم اعتماد کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ یوں قانون ہاتھ میں لینے والے دیدہ دلیری سے قانون کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں ، اور انہیں سزا کا کوئی خوف دامن گیر نہیں ہوتا ۔ انہیں یہ یقینِ کامل ہوتا ہے کہ انصاف وہی ہے جو وہ اپنے ہاتھوں لے پائیں وگرنہ عدالت سے جلد انصاف ملنا ممکن نہیں ۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جو نظر سے گزرا اور نہ ہی شائد آخری واقعہ ہوگا ، لیکن یہ واقعات سوچ کے دروازے پر ایک مستقل دستک ضرور دیتے رہتے ہیں کہ کیا معاشرے اس طرح قانون ہاتھ میں لے کر ترقی کر سکتے ہیں ؟ کیا ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں جہاں قانون کی حکمرانی ہے ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے نظر آتے ہیں ، ایسے واقعات جیسے ہمارے ملک میں اکثر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور اب عوام اِن واقعات کو ایک عام سا واقعہ سمجھ کر یوں فراموش کر دیتے ہیں جیسے یہ کوئی انہونا واقعہ نہ ہو ۔ آج کل ہر محفل میں ایک سوال سب سے زیادہ موضوعِ گفتگو رہتا ہے اور وہ ہے آخر ملک کے حالات کب بدلیں گے ۔ اس سوال کے جواب میں ہر انسان مایوس نظر آتا ہے ۔ وہ شکوہ کناں تو ہے لیکن مسائل کے حل سے ناواقف ہے ۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولیاں تو بول رہا ہے لیکن اِن سب بولیوں میں وہ نقاط جن پر سب متفق ہیں اُن پر بات کی بجائے سب اُن نقاط پر زور دینے میں لگے ہوئے ہیں جن میں تفریق پائی جاتی ہے ، جن میں آپس میں توڑ پایا جاتا ہے ، حالانکہ حالات میں بہتری لانے کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ ان نقاط پر پہلے بات کی جاتی ہے جن پر سب متفق ہوں ۔ اُن ہی نقاط پر سب کو اعتماد میں لے کر ایسی فضاء قائم کی جاتی ہے کہ پھر اُن باتوں پر بھی اتفاق ممکن ہو سکے میں تفریق پائی جاتی ہے ۔ اسی لئے دنیا میں ہمیشہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالنے پر زور دیا گیا ہے ۔ ہمیشہ اختلافات میں حل کے دروازے بات چیت کر کے ہی کھلتے ہیں وگرنہ سختی سے دروازے کھلتے نہیں بلکہ ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ہم سب اِس ملک کو موجودہ بدحالی سے نکالنے کے لئے فکر مند ضرور ہیں ، لیکن اُس بردباری کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں جن پر متفق ہو کر قومیں ترقی کے در خود پر کھول لیتی ہیں ۔ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی کی انتہاء ہے ، جبکہ ترقی وہ معاشرے کرتے ہیں جہاں اپنے حقوق سے پہلے دوسرے کے حق کو تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ ہم جاپان کی مثالیں دیتے ضرور ہیں، لیکن اپنے معاشرے میں اُن اصولوں سے صریحاً انحراف کرتے ہیں جن اصولوں پر چل کر جاپانیوں نے اپنا آپ دنیا میں منوایا ہے ۔ ہم معاشرے کو ایک ایسا جنگل بنانے میں لگے ہوئے ہیں جہاں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے ، جبکہ دنیا صرف اُس قانون کو جانتی ہے جہاں فیصلے کرتے ہوئے صرف اور صرف انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں ، تاکہ ایسے معاشرے کی تکمیل کی جا سکے جہاں ہر فرد کو دوسرے کی جان اتنی ہی قیمتی محسوس ہو جتنی اپنی لگتی ہے ۔ قانون کی حکمرانی تسلیم کرتے ہوئے ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جہاں آگ پر پٹرول نہ ڈالا جاتا ہو بلکہ تدبر کا پانی ڈال کر بجھایا جاتا ہو ۔ جہاں حکومت عوام کی خدمت کے لئے بلا رنگ و نسل صرف ایمانداری سے کام کرنے کے حلف کی پاسداری میں مصروفِ عمل رہے ۔ جہاں ہر کوئی یہ حق رکھے کہ وہ اُن سوالات کے جواب طلب کر سکے جن کے جوابات نہ ملنے پر وہ سوالات اس کے ذہن میں نفرت کے بیج بونے میں معاون ہو سکتے ہوں اور وہ امن کا راستہ چھوڑ کر شدت کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کر سکتا ہو ۔ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہو جہاں اپنے حق کے حصول میں رشوت کا دریا نہ پارکرنا پڑے ۔ جہاں سفارش کی نہیں محنت کی جیت ہو اور میرٹ ہی اُس کی اصل کامیابی ہو ۔ جہاں وہ آئین کی حکمرانی کو صرف قصے نہیں حقیقت میں عملدرآمد ہوتا دیکھے۔ جہاں ہر شہری بلا رنگ و نسل مساوی حقوق صرف قانون کی کتاب میں نہیں بلکہ حقیقت میں رکھتا ہو ۔ جہاں افراد کو قانون کی حکمرانی کا اتنا یقین ہو کہ وہ فیصلے سڑکوں پر کرنے کے بجائے کمرہ ء عدالت میں ہونے کا یقینِ کامل رکھتے ہوں ۔ کہا جاتا ہے کہ جب دیگر ممالک میں دو فریق آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو ایک ہی بات کہتے ہیں کہ میں تمھیں عدالت میں دیکھ لوں گا کیونکہ انہیں انصاف پر پورا یقین ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اختلاف پر بندوقیں نکل آتی ہیں کیونکہ ہمارا یقین بندوق پر زیادہ ہےاور یہی معاشرے کے بگاڑ کا سبب ہے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دیر سے ہوتا انصاف بھی ناانصافی ہی کی ایک شکل ہے اور اس ناانصافی کا چلن اب ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے ، فیصلے اور انصاف کے حصول میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ انصاف ہوتے ہوتے کئی زندگیاں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں ۔ ہم کو اب یہ ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ ہم تب ہی ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں جب آئین کی ہر ایک شق پر صدقِ دل سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں ۔ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہر شخص کو انصاف اُس کی حیثیت دیکھ کر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضے پورا کر کے دیا جائے ۔ ایک ایسا ملک بنایا جائے جہاں اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کر کے ہر شہری کو برابر کا درجہ حاصل ہو ۔ جہاں امن ہو ، بھائی چارہ ہو اور ہر ایک کے حقوق کی ریاست نگہبان ہو ۔ جہاں ہر فرد کو سزا کا خوف کسی بھی غلط قدم اٹھانے سے روکنے کے لئے کافی ہو ۔ وگرنہ ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے جہاں ہم کہہ سکیں گے کہ احاطہ عدالت میں پڑی یہ لاش صرف ایک انسان کی نہیں بلکہ انصاف کی ہے ، یہ قتل ایک انسان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے ، یہ قانون پر یقین نہ رکھنے والے معاشرے کی لاش ہے ۔ یہ سَنّاٹےمیں چھپے شور کی آواز ہے ۔
~ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International