Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سپنا احساس کی صوفیانہ شاعری پر ایک طائرانہ نظر

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Friday, September 19th, 2025

rki.news
از قلم: سہیل ساحل، مدیر اہل قلم، لکھنئو
کہا جاتا ہے کہ سپنا جب احساس کا روپ دھار لیتا ہے تو وہ پھر سپنا نہیں بلکہ حقیقی احساس بن کر سامنے آتا ہے۔کچھ ایسا ہی احساس اپنے اسمِ گرامی کی طرح ہی سپنا احساس صاحبہ کی شاعری میں وافر نظر آتا ہے۔اُنہوں نے صوفیانہ شاعری کا جو سپنا سجایا اُسے احساس کی حد تک اپنے نوکِ قلم کے سپرد کیا۔
  سپنا احساس ایک ایسی صوفی شاعرہ ہیں جن کی شاعری میں عشق حقیقی کی گہرائی، روحانی سوالات اور کائنات کی سنسناہٹ واضح طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی غزلیں نہ صرف جذبات کی ترجمان نظر آتی ہیں بلکہ قاری کو ایک باطنی سفر پر بھی گامزن کرتی ہیں، جہاں ہر شعر ایک فکری نقوش ثبت کرتا ہے جس سے با آسانی یہ حقیقت بیاں ہوتی ہے کہ صوفیانہ شاعری کی روایت میں سپنا احساس نے ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی تخلیقات میں عشق کی بے پایاں طلب،لمس جدائی کا اذیت ناک منظر،خود شناسی کی جستجو اور روح کی آزادی کی بازگشت صاف سنی جا سکتی ہے جو آج کے دور میں بھی ایک خاص معنویت رکھتی ہے۔جہاں ایک طرف ان کی شاعری کائنات کی وسعت کے باوجود انسان کی تنہائی کی عکاس ہے وہیں دوسری طرف ہمیں صوفیانہ افکار کا درس بھی دیتی ہے۔ خاکسار کے مطالعے کے مطابق موصوفہ کی ہر غزل ایک فلسفہ ہے، ایک گہری فکر کا ازالہ جو عشق کی راہ میں انسان کی جدوجہد،صدائیصبر اور فنا کی تلاش کو بیان کرتی ہے۔
ان کی شاعری صوفیانہ اشعار کا مجسمہ ہے، جس میں نہ صرف ان کے کلام کی تشریح کی گئی ہے بلکہ ان کے تخیل کی وسعت، بیان کی گہرائی اور فکری جہت کا مفصل تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سپنا صاحبہ کی شاعری قارئین کو اپنی روح کی گہرائیوں میں جھانکنے اور عشق کی حقیقی معنویت  سے روشناس کرانے کا کام کرتی ہے۔
سپنا احساس کی شاعری ایک گہری روحانی بصیرت اور صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ ان کی غزلیں صرف محبت کی نہیں بلکہ وجود شناشی کی منہ بولتی تصویر ہیں جس میں درد و غم کا روحانی سرور اور کائناتی حقیقتوں کی بھی عکاسی ملتی ہے۔ ان کی زبان نہایت سادہ مگر پر اثر ہے، جو قاری کو فکر و تدبر کی دعوت دیتی ہے۔ سپنا احساس کی شاعری میں عشق حقیقی اور مجازی کی جدوجہد،بندگی کی پہچان اور انسانی احساسات کی گہرائی کو ایسے مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے جو دلوں کو چھو لیتا ہے۔۔ ان کی شاعری کا مرکزی محور عشق ہے جو نہ صرف انسانی تعلقات کا اظہار ہے بلکہ ایک بلند روحانی تجربہ بھی ہے۔ ان کی غزلوں کا ہرشعر ایک فلسفیانہ سوال اٹھاتا ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک شعر میں بیان کیا گیا ہے:
زندگی میری گفتار، تیری تمنائی ہے
تیری وحدت مری سانسوں میں اتر آئی ہے
یہ شعر نہ صرف عشق مجازی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کی تمام خوشیاں اور غم اسی تمنا کے گرد رقصاں ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے مفرد اور اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے غم و الم کو نہایت نرمی سے بیان کیا ہے:
رنج و غم،درد و الم آج اُبھر آئیں ہیں
مدتوں بعد یہ بھٹکے ہوئے گھر آئے ہیں
مذکورہ شعر بھی موصوفہ کی صوفیانہ فکر کا غماز نظر آتا ہے جہاں درد و غم کا رشتہ علم کی گہرائی سے استوار کیاگیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ احساسات روح کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
ان کی شاعری میں خودی کی پہچان اور کائنات کی حقیقت کا بیان بھی موجود ہے:
  آزمانے کو ہر اِک شخص ہے بیتاب مجھے
  یہ حقیقت ہے مری یہ مری سچائی ہے
میرے خیال سے سپنا احساس صاحبہ کا یہ شعر بھی قاری کو اپنے باطنی شعور کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے۔ان کی غزلوں میں جدائی اور وصال کا جو توازن بیان کیا گیا ہے،وہ خاص طور پر دل کو موہ لینے والا ہے۔ انہوں نیعشق کی صعوبتوں کو نہایت خوبصورتی سے قلمی پیکر میں ڈھالا ہے جو ایک عام عاشق کے جذبات سے کہیں آگے جا کر روحانی سطح تک پہنچتے ہیں۔
سپنا احساس کی صوفیانہ شاعری ایک انمول خزانہ ہے جو قاری کو نہ صرف جمالیاتی لطف دیتی ہے بلکہ اسے روحانی بصیرت سے بھی روشناس کراتی ہے۔
ذیل میں ان کی مختلف غزلوں کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
کس کو مجرم کہیں، اب یہ تو بتاؤ لوگو
مرے قاتل سے بہت میری سناسائی ہے
آنسوؤں سے کہو آنکھوں سے نہ باہر آئیں
دل سے کہہ دو کہ دھڑکنے میں بھی رسوائی ہے
  شاعرہ نے عشق کو نہ صرف ایک جذبہ بلکہ زندگی کی واحد حقیقت قرار دیا ہے۔ ان کے اشعار میں آنسو اور دل کی کیفیت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دکھائی گئی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ عشق میں جو درد و الم ہے، وہ باہم مربوط ہے۔ آخری مصرعے میں رسوائی کی بات کر کے عشق کے تکلیف دہ پہلو کو بھی بیان کیا گیا ہے، جو صوفیانہ شاعری کا خاصہ ہے۔
لمہ لمہ اک صدی تھا اور بسر میں نے کیا
ہجر کی تاریک راتوں کا سفر میں نے کیا
سرد راتوں کا تھا موسم دل پہ نشتر کی طرح
خواہشوں کا یوں لہو شام و سحر میں نے کیا
یہاں شاعرہ نے صدیوں پر محیط ایک طویل انتظار کی کیفیت بیان کی ہے۔ یہ ہجر کی تاریک راتوں کا ذکر روحانی جدائی کی علامت ہے۔ خواہشات کا بیان ایک طرح کی ہے چینی اور اندرونی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے جو عشق کی راہ میں پیش آتی ہے۔ اس غزل میں زمان و مکان کی قید سے ماورا ہو کر عشق کو ایک مستقل حقیقت کی طرح بیان کیا گیا ہے۔
جانے کس رنگ سے بھرے گا وہ
روشنائی ہے، کینوس میں ہوں
وہ مجھے قد کر نہیں سکتا
اپنی ہی روح کا قفس میں ہوں
انتہا ہے نہیں بشر کی مگر
بھیٹر میں اپنی ہم نفس میں ہوں
یہ غزل آزادی اور خود شناسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
شاعرہ نے کہا کہ وہ روشنی ہے، جو بندش سے آزاد ہے۔ یہ اشعار صوفیانہ فلسفے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں انسان کی حقیقت اس کی روح کی آزادی میں مضمر ہوتی ہے۔ قید کی بات کرکے اس سے نجات اور مکمل خودی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر روحانی اور فکری بیان ہے جو صوفیانہ شاعری کی روح بن جاتا ہے۔
 اکتا رہی ہوں کیوں میں بھلا اپنے آپ سے
ہو جانا چاہتی ہوں جدا اپنے آپ سے
سناٹا چیخ چیخ کے کہتا ہے رات دن
بھرتا نہیں ہے کوئی خلا اپنے آپ سے
یہ اشعار اندرونی جدائی کی کیفیت بیان کرتی ہے۔ خود سے جدائی ایک صوفیانہ مفہوم رکھتی ہے جہاں انسان اپنی انا سے فاصلہ رکھ کر حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ یہاں شاعرہ نے خود کو ایک منفرد وجود کے طور پر پیش کیا ہے، جو اپنی ہی شناخت سے دور ہو چکا ہے۔ رات دن کی تکرار اس جدائی کی شدت کو بڑھا دیتی ہے۔ یہ غزل انسان کے اندرونی سفر کی نمائندگی کرتی ہے، جو روحانیت کی جانب بڑھتا ہے۔
اداس اداس فضاء کائنات ٹھہری ہے
لبوں پر سب کے کوئی کچی بات ٹھہری ہے
نہ چاند تارے، نہ جگنو، نہ رات ٹھہری ہے
مرے خدا یہ تری کائنات ٹھہری ہے
یہاں پوری کائنات کی اداسی اور سکون کا احاطہ کیا گیا ہے۔
شاعرہ نے نہ صرف کائنات کو ایک تنہا وجود بتایا ہے بلکہ خود انسان کی تنہائی کو بھی نمایاں کیا ہے۔ کائنات کا سکون اور چمکدار چیزوں کی غیر موجودگی ایک فلسفیانہ تاثر دیتی ہے کہ عشق اور خود شناسی کی راہ میں دنیا کی رنگینی بے، معنویت ہے۔ زمین پر صرف ایک ذاتی وجود کی بات کر کے انسان کی انفرادیت اور اس کی خود شناسی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
یہ تمام تجزیے ایک دوسرے سے مربوط ہیں اورصوفیانہ شاعری کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہر غزل ایک منفرد فلسفہ پیش کرتی ہے، جو قاری کو اندرونی کشمکش، عشق کی صعوبتیں، خود شناسی اور کائناتی حقیقتوں کی طرف لے جاتی ہے۔ موصوفہ کی شاعری نہایت پرسوز،عمیق اور فکری انداز میں حقیقت کی تلاش کی نمائندگی کرتی ہے۔
سپنا احساس کی صوفیانہ شاعری عشق کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات خود شناسی، روح کی آزادی اور کائناتی تنہائی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ ان کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ ہر شعر میں ایک گہرا فلسفہ بیان ہوتا ہے جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ان کی ہر غزل ایک مکمل کہانی سناتی ہے جو عشق کی راہ میں انسان کی جدوجہد اور خودی کی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔
سپنا احساس کی شاعری صوفیانہ مزاج رکھنے والوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے جو عشق کی گہرائی،روحانی درد اور کائناتی حقیقتوں کی تفہیم فراہم کرتی ہے۔
صوفیانہ شاعری کی دنیا ایک وسیع اور پیچیدہ جہان ہے جہاں عشق الہی، خود شناسی، کائنات کی گہرائیوں اور انسان کی روحانی کشمکش کو انتہائی نازک انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس صنف شاعری میں سپنا احساس نے ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی غزلیں اور اشعار دل کی گہرائیوں سے نکل کر کائنات کی وسعتوں تک پھیلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جو قاری کو نہ صرف عشق کی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے روحانی سفر کی رہبری بھی فراہم ہوتی ہے۔
سپنا احساس کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی اس کا فکری انداز اور پر اثر تشبیہات ہیں۔ ہر شعر ایک نیا پہلو سامنے لاتا ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان کی غزلوں میں نہ صرف انسانی احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے بلکہ کائناتی حقائق، روح کی تلاش اور عشق کی صعوبتوں کی بھی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ جہاں عام غزلیں محبت کی رومانوی کیفیت کو بیان کرتی ہیں وہیں سپنا احساس کی صوفیانہ غزلیں ایک گہرے فلسفے کی نمائندگی کرتی ہیں، جو زندگی کی پیچیدگیوں اور اس کی عارضیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ان کی شاعری میں درد اور وجد کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ جدائی کی اذیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو بھی اس کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ ” اداس اداس فضا کائنات ٹھہری ہے ” جیسے اشعار اس بات کا غماز ہیں کہ دنیا کی چکاچوند کے باوجود شاعرہ کی نظر میں کائنات کی خاموشی اور تنہائی کی حقیقت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سپنا احساس نے مادی دنیا کی ظاہری چمک دمک کو پس پشت ڈال کر روح کی گہرائیوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔
سپنا احساس کی شاعری میں خود شناسی کی جستجو نمایاں ہے۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتی ہیں، اپنے وجود کی حقیقت تلاش کرتی ہیں اور اس جدائی کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں جو ہر عاشق کی روح میں پنپتی ہے۔۔
چند اشعار دیکھیں ؎
پیروں، مرشد، مست قلندر، عشق میں سب جا رقص کریں
میں بھی پاگل، تو بھی پاگل،آ پاگل آ رقص کریں
مجنوں بھی تو، لیلیٰ بھی تُو، شیریں بھی،فرہاد بھی تُو
جنگل جنگل رقص کریں، آ صحرآصحرا رقص کریں
لا مرادی ہے اور عبث میں ہوں
ہائے خلوت کی دسترس میں ہوں
میں محبت لکھ رہی ہوں عاشقی سے ماورا
خود کو خود میں ڈھونڈتی ہوں بے خودی سے ماورا
بیاں وہ روشنی لفظوں میں کیا کروں احساس
گزر گئی ہے جو لمحوں میں، کیا کروں احساس
چھوڑ یہ پیار، محبت کے لطیفے، پاگل!
مجھ کو کر دیں گے مری جان یہ قصے،پاگل!
مختصراً یہ کہ میرے خیال میں سپنا احساس کی شاعری آج کے دور کے لیے نہایت معنی خیز اور ضروری ہے۔ جہاں ہم تیز رفتار زندگی میں مادے کی دوڑ میں گم ہیں، وہاں ان کے کلام کی گہرائی ایک ایسا ساکت نقطہ نظر پیش کرتی ہے جو قاری کو خود کی شناخت اور حقیقت کی تلاش کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان کی صوفیانہ شاعری ایک بصیرت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ عشق صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک مسلسل روحانی سفر ہے۔
خلاصہ یہ کہ سپنا احساس کی غزلیں اور صوفیانہ شاعری ہر قاری کے لیے ایک آئینہ ہیجو اندرونی گہرائیوں کی تلاش میں رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کلام فکری، فلسفیانہ اور روحانی تجربات کی عکاسی کرتا ہے، جو ہر پڑھنے والے کو عشق کے حقیقی پہلو سے متعارف کروانے کا طاقتور ذریعہ ہے۔ میں ان کی شاعری کو اس صنف میں ایک انمول اضافہ سمجھتا ہوں، جو صوفیانہ شاعری کی روشنی میں نئے افق پیدا کرتا ہے اور قارئین کو مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔   ختم شد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International