تحریر : علیزہ یعقوب
ماہر نفسیات
قارعین ! السلام علیکم میرا نام علیزہ یعقوب ہے ۔پیشے کے لحاظ سے میں ماہر نفسیات اور سپیچ لینگوئج تھراپسٹ ہوں.آج کا ٹاپک ہے سپیچ تھراپی ،سپیچ تھراپی کن کیلۓ ضروری ہے؟سپیچ تھراپی کیوں ضروری ہے؟
آج کل ہمارے معاشرے میں جو ایک اہم مسئلہ ہے وہ ہے بچوں کا نہ بولنا اس کے پیچھے کی ایک اہم وجہ ہے سکرین ٹائم۔زندگی کی چہل قدمی میں بنی نوع انسان اتنا مصروف ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو معقول وقت نہیں دے پارہے اور اس کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے۔بچے دن کا زیادہ تر حصہ موبائل فون دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جبرش زبان بولتے ہیں،بالکل کارٹون کی طرح۔کیونکہ وہ ٹی وی،موبائل فون سے یہی سب سیکھتے ہیں۔اور پھر وہ بولنا چھوڑ دیتے ہیں، ان کی سپیچ ریگریس ہوجاتی ہے،لفظی رٹ(Echolalia) کی طرف جاتے ہیں یعنی کہ جو بولا جارہا ہوتا ہے اسے ویسے ہی ریپیٹ کرتے ہیں کیونکہ انھے سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ کیا بول رہے ہیں یا وہ کچھ بولتے ہی نہیں۔کیونکہ انھے سب کچھ اشارہ کرنے پر یا توڑ پھوڑ کرنے سے مل جاتا ہے وہ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور نا انکے والدین انھے جاننا چاہتے ہیں انھے لگتا ہے وہ اس مصروف دور میں بچے کی تمام ضروریات پوری کر رہے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بچوں کا فیورٹ کوکومیلن انھے ہر وقت چاہیے ہوتا اگر بچوں کو موبائل فون نہ دیں تو وہ چیختے،چلاتے اور مارتے ہیں نیز چیزیں اٹھا کر پھینکتے ہیں تاکہ والدین انکی بات مانیں اور اس سٹیج پر والدین انکے رویے کو کنٹرول کرنے کی بجاۓ ان کے سامنے دب جاتے ہیں.ایسے بچوں کو برتاؤ کی تھراپی (Behavior Therapy) اور سپیچ تھراپی(Speech Therapy) کی ضرورت ہوتی ہے۔ لینگوئج کی دو (2)اقسام ہوتی ہیں۔پہلی اخذ ،سمجھنے والی زبان(Receptive Language) جبکہ دوسری اظہار کرنے والی زبان۔(Expressive Language).بچے کے بولنے کیلۓ ان دونوں کا ہونا ضروری ہے پہلے چیزوں کی سمجھ آتی ہے اور پھر بچہ اسکا اظہار کرتا ہے کہ اسے کیا چاہیے یا وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔بچے کے بولنے کی مخصوص عمر ہوتی ہے جس میں بچہ بولنا سیکھتا ہے پہلے آوازیں نکالنا،پھر پہلا حرف اور پھر جملے۔جس میں پہلے بچہ چھوٹے چھوٹے جملے بولتا ہے اور پھر بڑے جملوں میں اپنی ضرورت بیان کرتا ہے۔لیکن اب یہاں پر ایک اہم بات یہ ہے کچھ بچے مخصوص وقت میں بولنا نہیں شروع کرتے اور انکے والدین اس چیز پر توجہ نہیں دیتے اسکا چیک اپ نہیں کرواتے کیونکہ ان کی سوچ ہوتی ہے کہ ابھی تو یہ چھوٹا ہے،خودی بول لے گا ،یا اس کے والد یا کوئی رشتہ دار بھی لیٹ بولنا شروع ہوۓ تھے یہ ان پر گیا ہے اور ایسے کرتے بچے کی عمر گزر جاتی ہے اور جب پانچ سال کے بچے کو سکول داخل کروانا ہوتا تو تب فکر ہوتی ہے کہ یہ تو بولتا نہیں اسے کیسے اسکول بھیجیں ،یا اسکول والے ایڈمیشن سے انکار کردیتے ہیں تب وہ بچہ تھراپی کیلۓ آتا اور اس کا اتنا نقصان ہوچکا ہوتا وہ اپنی عمر کے بچوں سے پیچھے رہ جاتا۔ اور پھر والدین کا دباؤ تھراپسٹ پر ہوتا کہ بچہ جلدی بولے،یا سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال کہ ہمارا بچہ کتنی دیر میں ٹھیک ہوگا ؟جس کا جواب تھراپسٹ کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک آہستہ ریکور ہونے کا مرحلہ ہوتا جس میں تھراپسٹ کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی اہم کردار ہوتا کہ وہ بچے کو کتنا وقت دیتے ہیں ،گھر پر اس پر کتنی توجہ دیتے ہیں ؟اسکا سیشن لیتے ہیں یا نہیں؟اور بچے کی اپنی قابلیت کیا ہے،وہ کتنی جلدی سیکھتا ہے اور کتنی کوشش کر رہا ہے۔جو بچے بول نہیں سکتے وہ اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرپاتے کہ انھیں کیا چاہیۓ ،اس کے علاوہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتے کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ پیچھے پیچھے رہتے ہیں ،انکا کنفیڈنس لو ہوتا ہے،سیلف اسٹیم بہت کم ہوتی ہے وہ خود کو دوسرے بچوں کی نسبت کم سمجھتے ہیں ۔چپ چپ رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اور بہت سے اور سائیکلوجیکل ایشوز پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ ڈپریشن اور اینزائٹی۔ایسے بچے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں ،خوشی محسوس نہیں کرپاتے ،اداس رہتے ہیں۔اس سب سے بچے کو بچانے کیلۓ ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ٹائم دیں ،ان کے ساتھ کھیلیں،وقت گزاریں اور انکا بروقت چیک اپ کروائیں۔اس کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ جو ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان سپیشل بچوں کو مُڑ مُڑ کر دیکھتے ہیں،یا ان کے سامنے ہی ان پر افسوس کرتے ہیں جو انکے کنفیڈنس کو لو کرتا ہے۔ ان پر ہنستے ہیں ،اور اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا کہ یہ ان کے والدین کے گناہوں کی سزا ہے جو کہ بہت ہی نامعقول، غلط بات ہے ۔ایک ماہر نفسیات اور سپیچ تھراپسٹ کی حیثیت سے میری آپ سب قارعین سے درخواست ہے کہ خدارا سپیشل بچوں کو اپنا سمجھیں ،انھے سمجھیں ،ان سے پیار کریں تاکہ وہ بچے خوشی محسوس کرسکیں اور اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں میرا ساتھ دیں۔
Leave a Reply