Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سکون احساس

Articles , Snippets , / Tuesday, July 22nd, 2025

rki.news

ناز پروین
قیام پاکستان سے بہت پہلے ہندوؤں میں ستی کا رواج عام تھا ۔ستی ایک ایسی رسم تھی جس میں شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کو بھی اس کی لاش کے ساتھ چتا میں زندہ جلا دیا جاتا۔ راج مہاراجوں سے لے کر عام عوام تک میں اس رسم پر عمل کیا جاتا ۔برطانوی دور حکومت میں انگریزوں نے اس رسم کو غیر انسانی اور ظالمانہ قرار دیا ۔
لارڈ بینٹک نے 49 اعلیٰ فوجی افسران اورپانچ ججوں سے اس معاملے پر رائے طلب کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’برطانوی حکمرانی کے دوران اب اس داغ کو دھونے کا وقت آ گیا ہے۔ گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829 میں ہندوؤں کی قدیم مذہبی رسم ستی پر پابندی عائد کر دی ۔یوں حکومت وقت کے بروقت اقدام سے ایک بھیانک غیر انسانی رسم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا ۔انہوں نے نہ صرف قانون بنایا بلکہ اس پر بھرپور عمل درآمد بھی کروایا ۔سوچنے کی بات ہے کہ یہ انگریز اپنے محلات میں آرام سے سکون سے بیٹھے حکومت کرتے رہتے ۔ اس رسم میں مداخلت نہ کرتے کہ یہ یہاں کے قدیم رسم و رواج میں شامل ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔شیتل یا بانو وہ جو کوئی بھی تھی اسے ایک کریہہ قبائلی روایت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔چند دن سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ویڈیو نے دماغ کو سن کیا ہوا ہے ۔بڑے وقار سے گاڑی سے اتر کر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی پرسکون طریقے سے موت کے سنگھاسن کی جانب بڑھتی ہوئی وہ جو کوئی بھی تھی ہم سب کے لیے ایک پیغام چھوڑ گئی۔ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑ گئی ۔14 ،15 مردوں میں گھری ہوئی جن میں یقیناً اس کے اپنے بھی شامل تھے ۔سینے تان کر اس کی پشت پر فائر کرتے ہوئے اپنی مردانگی اپنی غیرت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ آدم زادے بڑے غرور سے گھوم پھر رہے ہوں گے ۔اپنے قبیلے کی رسم و رواج کو پورا کر کے اپنی پگڑیاں اپنے شملے اونچے کر کے باعزت ہو گئے ہوں گے ۔اس جیسی نہ جانے کتنی ہی بچیاں بلوچستان کے پی پنجاب اور سندھ میں ریگستانوں پہاڑوں میں دفن ہیں ۔بے نام قبریں جن پر نہ نظر آنے والے بڑے بڑے کتبے لگے ہیں ان کتبوں پر ان کے اپنے بھائی باپ چچا ماموٶں کے نام لکھے ہیں۔روز محشر اپنی قبروں سے نکل کر ان کتبوں کو تھامے یہ منصف اعلیٰ کے حضور پیش ہوں گی اور پھر وہاں جو انصاف ہوگا یہ وڈیرے پیر سردار مخدوم جاگیردار سب کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جائیں گے ۔ان معصوموں کے ہاتھ ہوں گے اور ان کے گریبان ۔نہ کوئی سفارش کام آئے گی نہ کوئی عہدہ ۔ان کی زبان خاموش ہو گی اور وہ ہاتھ گواہی دیں گے جن سے انہوں نے ان معصوم و مظلوموں کو مارا ۔مختاراں مائی وہ پہلا کیس تھی جسے میڈیا پر بہت شہرت ملی ۔وہ گرچہ ماری تو نہ گئی لیکن جرگے کے فیصلے کے مطابق اس کی عزت سب کے سامنے تار تار کر دی گئی ۔ وہ باہمت ثابت ہوئی اپنے حق کے لیے ،انصاف کے لیے سینہ سپر ہو گئی ۔جب مختاراں مائی کا کیس بین الاقوامی سطح پر شہرت پا گیا اور اس کے خلاف بہت آوازیں بلند ہوئیں تو اس وقت کے ہمارے جری بہادر صدر نے کہا کہ ایسی عورتیں باہر کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ڈھونگ رچاتی ہیں ۔مختاراں مائی آج بھی پاکستان ہی میں ہے ۔اپنے حق کے لیے انصاف کے لیے مسلسل لڑ رہی ہے۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے اس سابقہ صدر کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب میں تو پاکستان میں ہی ہوں آپ کہاں ہیں ۔جب ملک کے حکمران ہی ایسی سوچ رکھیں تو ان معصوم مظلوم بچیوں کا مداوا کون کرے گا ۔سندھ میں رانی پور کے گدی نشین کی حویلی میں 10 سالہ فاطمہ جان کی بازی ہار گئی سرکاری ڈاکٹر نے موت کو فطری قرار دیا ۔لیکن خدا جانے فاطمہ کی روح بے چین تھی کہ وڈیرے کی خواب گاہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہو گئی ۔جسے دیکھنے کے لیے دل کو بڑا مضبوط کرنا پڑا کہ قمیض سے بے نیاز فاطمہ پیر صاحب کے بستر کے ساتھ فرش پر پڑی تڑپ رہی ہے اور یوں تڑپتے تڑپتے ہی جان کی بازی ہار گئی ۔اس ویڈیو نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔فاطمہ ایک غریب ہاری کی بیٹی تھی جو متعدد دوسری بچیوں کے ساتھ حویلی میں پیروں کی خدمت کے لیے لائی گئی تھی ۔ان بچیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ۔ورنہ خدمت گار بچی کا برہنہ پیر کی خوابگاہ میں کیا کام تھا ۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ثابت ہو گیا کہ اس کے ساتھ متعدد بار زیادتی کی گئی اس کے جسم پر تشدد اور نیل کے نشان تھے ۔مقدمہ درج ہوا ۔میڈیا پر شورو غوغاں ہوتا رہا۔پیر صاحب خود سندھ کی اسمبلی کے ممبر کے رشتہ دار تھے میڈیا پر باقاعدہ بڑے بڑے جرگے دکھائے گئے جس میں اس علاقے کہ معززین پیر صاحب کی شرافت اور نیکی کی گواہیاں دیتے نظر آئے اور اس واقعے کو ان کے خلاف سازش قرار دیا ۔فاطمہ کے والدین شروع میں تو انصاف مانگتے نظر آئے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ انصاف ہمارے ملک سے روٹھ کر کہیں چلا گیا ہے یہ ملتا بھی ہے تو ان وڈیروں پیروں سرداروں جاگیرداروں مخدوموں کو۔اور پھر وہی ہوا کہ فاطمہ کے والدین نے عدالت میں پیر صاحب سے راضی نامہ کر لیا اور معاف کر دیا ۔یہ چند واقعات ہیں ان صحراؤں ریگستانوں پہاڑوں میں نہ جانے کتنی شیتل کتنی بانو کتنی فاطمہ دفن ہیں ۔جن کی روحیں پوچھتی ہیں کہ آج سے ساڑھےچودہ سو سال پہلے ایک رحمت اللعالمین تشریف لائے تھے اور انہوں نے تمام بچیوں کو امان دی تھی ۔وہ بھی تو ایک قبائلی رسم و رواج سے جکڑے معاشرے میں آئے تھے لیکن انہوں نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی ممانعت کر دی تھی اسے گناہ کبیرہ قرار دیا تھا بیٹیوں کو رحمت قرار دیا اور حسن سلوک پر جنت کی بشارت دی ۔کیا اس طرح کے تسلسل سے واقعات کے بعد پاکستان کے ساتھ اسلامی کا لاحقہ لگا سکتے ہیں جہاں تسلسل سے اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔بچپن میں ٹی وی پر ایک سیریز دیکھی تھی جس کا نام تھا ڈارک جسٹس ۔فلم کا ہیرو ایک جج ہوتا ہے اس کی عدالت میں اکثر گھناونے جرائم کے مرتکب افراد قانونی سقم کی وجہ سے بری کر دیے جاتے ہیں لیکن وہ خفیہ طور پر ایک ٹیم کے ساتھ مل کر انہیں جہنم واصل کرتا ہے ۔روٶف کلاسرہ صاحب کا پروگرام دیکھا ۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے بلوچستان میں ہی پانچ بچیوں کو گولیاں مار کر زخمی حالت میں ہی زندہ دفن کر دیا گیا تھا ۔انہوں نے جب اس پر آواز اٹھائی تو اس وقت کے اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جن کا تعلق بلوچستان سے تھا نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ تم کون ہوتے ہو ہماری روایات میں دخل اندازی کرنے والے ۔۔اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کے خلاف جب کے پی اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی گئی تو یہاں کے قبائلی ممبرز نے اعتراض کیا کہ یہ ہماری صدیوں سے چلتی روایات ہیں کسی کو ان میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ۔یہ حال ہے ہمارے قانون ساز اداروں صاحب اقتدار کا کا جن سے ہماری امید بنتی ہے کہ وہ ظلم کے اس سلسلے کو روکیں گے لیکن جب وہ خود ہی اس کا دفاع کریں گے تو انصاف کہاں سے ملے گا ۔چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر سو موٹو ایکشن لینے والے ہمارے منصف آخر کس دباؤ کے تحت خاموش بیٹھے ہیں۔ان بچیوں کی روحیں ماتم کناں ہیں کہ
”میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے “۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ایک آدھ گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ سرفراز بگٹی صاحب خود ایک قبیلے کے سردار ہیں ۔اس اسمبلی کے وزیراعلیٰ جس کی اکثریت ان سرداروں پر مشتمل ہے ۔کیا وہ خود ایکشن لے کر مجرموں کو سزائے موت دیں گے کیا وہ لارڈ ولیم بینٹنک جیسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں گے ۔جناب یہ وقت سوشل میڈیا کا ہے ۔ہمارے یہ بلوچ سورماء بانو اور اس کے شوہر کو گاڑی سے اتار کر گولیاں مارنے تک ایک ایک لمحہ اپنے موبائلوں میں محفوظ کرتے رہے۔ نہ جانے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو کیسے لیک ہو گئی شاید اپنی بہادری کا ریکارڈ رکھناچاہ رہے تھے۔اس ویڈیو میں ہر شخص کی شناخت ہو رہی ہے ۔صرف فائرنگ کرنے والے ہی نہیں بلکہ ارد گرد کھڑا ہونے والا ہر شخص اس واقعے کا مجرم ہے ۔صرف ویڈیوز کو شیئر کرنا ہی اس مسئلے کا حل نہیں ۔ ہماری جہالت پر جگ ہسائی ہو رہی ہے ۔صرف اس ایک واقعہ پر نوٹس لینا ہی نہیں بنتا بلکہ ایک سخت ترین قانون بنا کر نافذ کرنا پڑے گا ۔اور جس علاقے میں ایسا واقعہ ہو اس علاقے کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبرز کی رکنیت ختم کر دی جائے ۔ خان ملک وڈیرے پیر مخدوم سائیں جاگیردار ان سب کا اثر و رسوخ ختم کرنا ہوگا ۔اگر سویلین اداروں سے یہ کام نہیں ہو سکتا تو پھر مقتدر حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ کو آگے آنا ہوگا ۔سول سوسائٹی کو جو میں آپ اور ہم سب ہیں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی ۔کیا مختاراں مائی فاطمہ اور بانو جیسی مظلوم لارڈ ولیم بنٹنک کا انتظار کریں گی جس نے ہندو اکثریت کے ملک میں رسم و رواج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک غیر انسانی رسم پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی ۔جسے معلوم تھا کہ اس مذہبی روایتی رسم پر پابندی پر اسے ملک بھر کے ہندوؤں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اس نے پرواہ نہ کرتے ہوئے انسانیت کی لاج رکھی ۔بانو جس سکون سے گاڑی سے اتر کر اپنے پیاروں کی بندوقوں کی چھاؤں میں چل کر گئی ۔آٹھ نو گولیاں کھانے کے بعد بھی اس کا چہرہ نہ بگڑا ۔نہ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار دکھائی دیے ۔بانو کے چہرے کا یہ سکون ہمیں بے سکون کر گیا ہے۔ سندس سیدہ کی یہ نظم انہی بیٹیوں کی ترجمان ہے

انہیں سنگسار کر ڈالو
انہیں مسمار کر ڈالو
عصمتوں کے کھلاڑیوں کو
ہوس کے پجاریوں کو
حوا کی بیٹیوں کے شکاریوں کو
انہیں سنگسار کر ڈالو
انہیں مسمار کر ڈالو
مجرم تو بن سکتے ہیں
محرم بن نہیں سکتے
یہ عزت کر نہیں سکتے
یہ عزت بن نہیں سکتے
جنہیں جس ذات نے پالا
اسی سے بے وفا نکلے
انہیں سنگسار کر ڈالو
انہیں مسمار کر ڈالو


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International