Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سیاسی استحکام کی ضرورت

Articles , Snippets , / Tuesday, April 29th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

پاکستان میں لا قانونیت بڑھ رہی ہےاورسیاسی عدم استحکام سمیت عدم انصاف نےملک کی صورتحال بہت ہی نازک کر دی ہے۔دہشت گردی بھی ملک کو کھوکھلا کر رہی ہے۔سیاسی عدم استحکام مسائل میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کے لیے لڑتی بھی ہیں اور اپنے مفاد کے لیےاکٹھی بھی ہو جاتی ہیں۔جب عوام کے حقوق کی بات آتی ہےتو سیاسی پارٹیاں مختلف قسم کے راگ الاپنا شروع کر دیتی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کادعوی کیا جاتا رہا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔جمہوریت کا دعوی ایک علیحدہ مسئلہ ہےاور جمہوریت کی موجودگی دوسرا مسئلہ ہے۔جمہوریت میں عوامی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے،لیکن یہاں عوام مختلف مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔آمریت اعلانیہ بھی موجود رہی ہے اور جمہوریت کے پردے میں بھی آمریت موجود رہی۔سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے استحکام کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکیں۔سیاست بہت آلودہ ہو چکی ہےاور ہر پارٹی سیاست کی تعریف اپنی مرضی کے مطابق کر رہی ہے۔کوئی پارٹی قوم پرستی کے نام پر اپنا وجود برقرار رکھ رہی ہے اور کوئی پارٹی زبان کے نام پر پنپ رہی ہے۔کہیں مسلک کے نام پر عوام کی کھال اتاری جا رہی ہے اور کہیں سوشلزم/کمیونزم کے نام پر عوام کو چونا لگایا جا رہا ہے۔کہیں حقوق کے نام پر عوام کا کچومر نکالا جا رہا ہے اور کہیں ترقی کے نام پر عوام کو رگڑا جا رہا ہے۔سیاسی پارٹیاں دعوے کرتی ہیں کہ ملک کو بھنوروں سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہےلیکن ملک مزید دلدلوں میں دھنس رہا ہے۔سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کے لیے کارکنوں کواستعمال کرتی ہیں۔کارکن ہمیشہ قربانیاں دیتے آئے ہیں اور لیڈران حضرات ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر مفادسمیٹ رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں سازشوں کےذریعے جمہوریت کو کمزور کرتی رہتی ہیں لیکن سازشوں کو ناکام کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟ایک عام آدمی سازشوں کو پہچان لیتا ہے تو سیاستدان ان سازشوں کو پہچان لینے میں ناکام کیوں ہیں؟تھوڑی سی بھی سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والا سمجھ لیتا ہےکہ عالمی سازشیں ہو رہی ہیں،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاستدان ان سے وقفیت نہ رکھتے ہوں؟دراصل سیاستدان اپنے مفاد کے لیےسازشوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔پاکستانی سیاست دان قرضے کے حصول کو کامیابی سمجھتے ہیں اور آگے کوشش نہیں کرتے کہ حاصل کیے گئے قرضے پاکستان کی فلاح کے لیےاستعمال ہوں۔سیاست دانوں کو پورا الزام دینا بھی درست نہیں کیونکہ عوام جان بوجھ کر جب گڑھوں میں گرنے کے لیے تیار ہو تو دوسرا کیا کر سکتا ہے؟عوام سیاسی تفریق خود ہی چاہتی ہے اس لیےمطلبی سیاستدان آسانی سےعوام کو مطمئن کر دیتے ہیں۔اس بات کااعتراف ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ صحیح فیصلے نہ کریں اور عوام بھی خاموش رہتی ہے تو سیاست دان مجبوری کی حالت میں وہ کام بھی کر لیتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوتے۔عوام اگر اکٹھی ہو کر سیاستدانوں کو مجبور کرے کہ وہ درست فیصلے کریں تو سیاست دان مجبور ہو جائیں گے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں پالیسیاں بنائیں۔اگر کہیں ظلم ہو رہا ہو تو عوام اس کا تماشہ دیکھنا شروع کر دیتی ہے،حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ظلم کو روکا جاتا اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا لیکن تماشہ دیکھ کر خاموش ہونا عوامی وطیرہ بن چکا ہے۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بہت بڑھ چکا ہے۔سیاست کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہےاور اس بات کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی کہ دوسرے کیا سوچیں گے؟اگر یہی حالت رہی تو آنے والی نسلیں مزید پسماندگی کا شکار ہوتی رہیں گی۔سیاستدان جنہوں نےملک کو آگے لے جانا تھا لیکن پیچھے کی طرف ملک کو دھکیل رہےہیں۔سیاستدانوں کا محاسبہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ عوامی مفاد کے لیےکام کرسکیں۔
پاکستان وسیع خزانوں کا مالک ہےاور یہ اتنے خزانے ہیں کہ پاکستان خود بھی خود کفیل ہو سکتا ہے اور دوسروں کی بھی مدد کر سکتا ہے۔معدنیات کےخزانوں کےعلاوہ زرخیز رقبہ بھی موجود ہےاورانڈسٹریز بھی قائم کی جا سکتی ہیں۔پاکستان آسانی سے ترقی کر سکتا ہے،لیکن رکاوٹ یہی ہے کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔پاکستان میں سیاست کو جب تک استحکام نہیں مل جاتا،اس وقت تک ترقی حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔عوام کو خود بھی بیدار ہونا ہوگا۔برادری کی سیاست اور دوسری ہر قسم کی نقصان دہ سیاست کو چھوڑ کرحقیقی سیاست کی طرف راغب ہو کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔عوام کی طرف سے محاسبہ نہ ہونے کی وجہ سے سیاست دان بھی مطمئن ہیں۔عوام اگر سیاست دانوں کا محاسبہ کرنا شروع کر دے تو سیاستدان مجبورا درست راستہ اختیار کر لیں گے۔سیاسی عدم استحکام بہت سے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔مثالی سیاستدانوں/ حکمرانوں کے واقعات تاریخ کے اوراق میں بکھرے پڑے ہیں،جنہوں نےعوام کی فلاح کے لیے کام کیا۔دنیا میں اب بھی کئی سیاستدان موجود ہیں جو مثالی کہے جا سکتے ہیں۔پاکستان میں بھی مثالی سیاست دان/حکمران پائے جا سکتے ہیں اگر عوام ڈٹ جائےکہ ملک کا نظام درست کرنا ہے۔پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ صحیح سیاسی نظام قائم ہو جائے۔ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اور قومی مفادات کواولین ترجیح دے کر ملک کی شان و شوکت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔سیاسی استحکام سے غربت، مہنگائی،نا انصافی،ظلم وجبر اور دیگر کئی مسائل قابو میں آسکتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔ملک میں سیاسی حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور مایوسی بہت بڑھ رہی ہے۔پاکستانی عوام اور سیاستدانوں کےعلاوہ تمام ادارے مل کر پاکستان کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو “ایک عظیم پاکستان” بنانے سے نہیں روک سکتی۔پاکستان نہ تو انتہائی غریب ہےاور نہ دفاعی لحاظ ایک کمزور ہے،بلکہ ہرلحاظ سے ایک مضبوط ملک ہےاور اس کو مزید مضبوط بنا کر دنیا میں ایک مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔سیاست دانوں کی طاقت عوام ہوتی ہے،اس لیے عوامی طاقت سیاست دانوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ درست قدم اٹھائیں۔اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہمیں مستحکم پاکستان ہی چاہیے توسیاست کو استحکام دلانا ضروری ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International