rki.news
از: ڈاکٹر پروفیسر عبدالصمد نور سہارن پوری
اردو ادب کی دنیا میں ایسے کئی نام ہیں جنہوں نے اپنی فکری جدت، تہذیبی شعور اور شعری وقار کے ذریعے قارئین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے، اُن میں ایک معتبر اور نمایاں نام سید مقبول حیدر زیدی المعروف مقبول زیدی کا ہے، جن کا تعلق سکھر، پاکستان سے ہے۔ وہ نہ صرف ایک منفرد اسلوب کے حامل شاعر ہیں بلکہ اردو ادب کے ایک فعال اور بامقصد علمبردار بھی ہیں۔ اُن کی شخصیت میں فکری بالیدگی، تہذیبی وابستگی اور ادبی خدمت کا جذبہ گہرائی سے رچا بسا ہے۔
پیشے کے اعتبار سے مقبول زیدی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (ASF) میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے، اور اپنی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مکمل طور پر ادب اور شاعری کے لیے وقف ہو گئے۔ اُن کے شعری سفر کی تشکیل میں اُن کے استاد مرحوم عارف منصور کی تربیت نے بنیادی کردار ادا کیا، جنہوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارا اور اُنہیں فکری گہرائی عطا کی۔
ان کا پہلا شعر ہی ان کی علامت نگاری، جمالیاتی حس اور فکری بلوغت کا آئینہ دار ہے:
“اسے ہر جائی کہنے میں تو دشواری نہیں ہوتی
پر اڑتی تتلیوں پہ حد کوئی جاری نہیں ہوتی”
یہ شعر نہ صرف عشقیہ تمثیل پیش کرتا ہے بلکہ آزادی، فطری توازن اور انسانی رویوں کے تضادات کو علامتی پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ یہی انداز ان کی پوری شاعری میں جاری و ساری نظر آتا ہے۔
مقبول زیدی صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فعال ادبی منتظم بھی ہیں۔ انہوں نے دو ایسی ادبی تنظیمات کی بنیاد رکھی جنہوں نے ادب کے فروغ اور بالخصوص تقدیسی شاعری کو ایک باقاعدہ اور معتبر رخ دیا۔
1. سلام گزار ادبی فورم انٹرنیشنل
یہ تنظیم تقدیسی ادب، خاص طور پر ردیفی سلام کے فروغ کے لیے وقف ہے۔ اس فورم کے تحت تقریباً پندرہ سال سے مسلسل ماہانہ مشاعروں کا انعقاد ہو رہا ہے، جس میں شعرا اہلِ بیت علیہم السلام سے عقیدت کے اظہار کے لیے اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ مقبول زیدی نہ صرف ان مشاعروں کی نظامت کرتے ہیں بلکہ پیش کیے گئے کلام کو نہایت سلیقے سے کتابی صورت میں مرتب بھی کرتے ہیں۔ اب تک اس سلسلے میں تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں:
حرفِ زیارت گزار
مودت کا سفر
عقیدت کی منزل
یہ مجموعے نہ صرف تقدیسی ادب کے اعلیٰ نمونے ہیں بلکہ اردو شاعری میں ایک روحانی و تہذیبی باب کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔
2. شہ نشین
یہ ایک ایسا ادبی پلیٹ فارم ہے جو خاص طور پر غزل کی ترویج اور تنقید کے لیے قائم کیا گیا۔ اس نشست کے دو حصے ہوتے ہیں:
تنقیدی نشست: جس میں کسی منتخب شاعر کی غزل پر یا کسی منتخب ادبی عنوان پر فکری و فنی گفتگو کی جاتی ہے۔
مشاعرہ: جس میں معتبر اور نوآموز شعرا اپنی غزلیں پیش کرتے ہیں۔
یہ دونوں پہلو نوجوان شعرا کی تربیت اور غزل کی جمالیاتی قدروں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مقبول زیدی کا پہلا شعری مجموعہ “ابھی کچھ پھول تازہ ہیں” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری کے کئی نمایاں پہلو سامنے آتے ہیں:
جن میں روایت اور جدت کا امتزاج، نپا تُلا معنی خیز اور پراثر اسلوب، عقیدت، محبت، داخلی کرب، تہذیبی شعور اور انسان دوستی جیسے موضوعات کا سمندر ہے۔
مقبول زیدی کی شاعری محض خوبصورت الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ معاشرتی شعور کی ترجمان ہے۔ وہ علامتوں، استعاروں اور سادہ زبان کے ذریعے پیچیدہ احساسات اور سماجی حقائق کو بے ساختہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں روحانی آگہی، سماجی بیداری، اور داخلی کرب ایک ساتھ بامعنی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔
مقبول زیدی ایک ایسے شاعر، مدبر اور ادبی معمار ہیں جنہوں نے شاعری کو محض ذاتی اظہار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے تقدیسی خدمت، سماجی شعور اور تہذیبی ورثے کے احیا کا ذریعہ بنایا۔ ان کی شخصیت ایک روشن چراغ کی مانند ہے جو نہ صرف خود روشنی پھیلا رہا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس راستے پر چلنے کی ترغیب دے رہا ہے۔
ان کا فکری، ادبی اور تنظیمی کردار آنے والے شعرا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اردو ادب کو ایسے ہی روشن کرداروں کی ضرورت ہے جو ادب کو صرف فن نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھ کر برتیں اور مقبول زیدی اس روشن روایت کے سچے امین ہیں۔
مقبول زیدی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کے فکری تنوع اور شعری مہارت کا خوبصورت اظہاریہ ہیں:
ساحل کی طرف رخ مرا ہوتا بھی نہیں ہے
یہ کیسا ہے طوفاں جو ڈبوتا بھی نہیں ہے
ہوا کے سامنے آؤ دیا جلاؤ تو
دیا سلائی اٹھاؤ دیا جلاؤ تو
اندھیرے راہوں کے چھٹ جائیں گے مرے ہمدم
تم ان سے خوف نہ کھاؤ دیا جلاؤ تو
قبضے میں لئے پانی ، ہوا چیخ رہا ہے
باطل میانِ کرب و بلا چیخ رہا ہے
اوروں کے گرا تا تھا نشیمن جو خوشی سے
وه اپنے ہی ملبے میں دبا چیخ رہا ہے
تمہارے بعد بھی جس کو کہا جاتا ہے گھر اب تک
مری حسرت کا ملبہ ہے جو بام و در پہ رکھا ہے
Leave a Reply