rki.news
تحریر: احسن انصاری
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیاتِ طیبہ تاریخِ انسانی کا وہ روشن باب ہے جو رہتی دنیا تک انسان کو روشنی اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ آپ ﷺ کی شخصیت صرف مذہبی عقیدت کا مرکز نہیں بلکہ انسانی اخلاقیات، معاشرتی عدل، ریاستی نظم اور عالمی امن کا مکمل ضابطہ ہے۔ سیرت کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے مختلف پہلوؤں سے انسانیت کو نئی جہت عطا کی۔ آپ ﷺ بہترین معلم، مصلح، سیاستدان، سپہ سالار، رحم دل شوہر، شفیق والد اور سب سے بڑھ کر رحمت للعالمین تھے۔ جس طرح چراغ اندھیروں میں روشنی دیتا ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی حیات ظلم و جبر، جہالت اور ناانصافی کے اندھیروں میں انسانیت کو صحیح راستہ دکھاتی ہے۔ آج جب دنیا مفاد پرستی، دہشت گردی اور ناانصافی کے سائے میں الجھی ہوئی ہے تو سیرت النبی ﷺ امید اور نجات کی کرن ہے جو دنیا کو امن و انصاف کی طرف لے جا سکتی ہے۔
مکہ کے جاہلانہ اور غیر مساوی ماحول میں آپ ﷺ نے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ معاشرے میں بت پرستی عام تھی، کمزوروں پر ظلم ہوتا تھا، عورتیں بے وقعت سمجھی جاتی تھیں اور طبقاتی تفریق نے معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رکھا تھا۔ ایسے ماحول میں آپ ﷺ نے سچائی، دیانت اور امانت کے اصولوں کو اپنایا۔ آپ ﷺ کے کردار کی عظمت کا اعتراف وہی قریش کرتے تھے جو بعد میں آپ کے سخت ترین دشمن بنے۔ ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ جیسے القاب اس بات کی دلیل ہیں کہ نبوت سے قبل بھی آپ ﷺ انسانی اخلاقیات کی بلندی پر فائز تھے۔ یہ پہلا پیغام تھا کہ معاشرے کی اصلاح محض قوانین سے نہیں بلکہ کردار کی پختگی سے ممکن ہے۔
غارِ حرا میں جب فرشتہ وحی لے کر نازل ہوا تو دنیا کے فکری افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوا۔ پہلی وحی نے علم اور پڑھنے کی اہمیت اجاگر کی، جو بعد میں اسلام کا بنیادی وصف بن گیا۔ اس پیغام نے انسان کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم، تدبر اور بصیرت کی طرف متوجہ کیا۔ آپ ﷺ نے دعوتِ توحید اور عدل کا آغاز پہلے اپنے قریبی حلقے سے کیا اور پھر اسے عام کیا۔ اس پیغام نے کمزوروں کو سہارا دیا اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کی امید دلائی۔
مکہ میں تیرہ برس تک مسلسل مشکلات کا سامنا رہا۔ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، ان پر معاشی اور سماجی پابندیاں لگائی گئیں، اور انہیں تنہا کرنے کی کوشش کی گئی۔ شعب ابی طالب کا تین سالہ محاصرہ اور طائف کی وادیوں میں پتھراؤ انسانی ہمت کو آزمانے والے واقعات تھے۔ لیکن رسول اکرم ﷺ نے ان سب مصائب کے باوجود صبر، استقامت اور دعا کو اپنا ہتھیار بنایا۔ آپ ﷺ نے کبھی انتقام کا راستہ نہ اپنایا بلکہ صبر اور درگزر کے ذریعے اپنی دعوت کو آگے بڑھایا۔ یہ پیغام آج کی قیادتوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ صبر اور اخلاق ہے، نہ کہ جبر اور ظلم۔
ہجرت مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک انقلابی موڑ تھا۔ یہاں ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی گئی جو عدل، رواداری اور مساوات پر قائم تھی۔ میثاقِ مدینہ اسلامی ریاست کا پہلا تحریری آئین تھا جس میں مسلمانوں کے ساتھ یہود اور دیگر قبائل کو بھی شامل کیا گیا۔ یہ معاہدہ اس بات کا اعلان تھا کہ مختلف مذاہب اور قبائل ایک ہی سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں باہمی احترام کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ آج کے کثیرالثقافتی معاشروں کے لیے یہ معاہدہ سب سے بڑی مثال ہے۔
مدینہ میں دشمنوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازشیں کیں اور ان پر بار بار حملے کیے۔ رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اپنائی اور کبھی جارحیت کی ابتدا نہ کی۔ غزوہ بدر، احد اور خندق اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ اسلام کی جنگیں صرف اپنی بقا اور عدل کی سربلندی کے لیے تھیں۔ آپ ﷺ نے ہر جنگ میں مشاورت کو بنیاد بنایا اور قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کر کے دنیا کو یہ دکھایا کہ جنگ کے میدان میں بھی اخلاقی اصولوں کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔
فتح مکہ تاریخ کا وہ عظیم دن تھا جب دشمنوں کو معاف کر کے آپ ﷺ نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مثال قائم کی۔ وہی قریش جنہوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے، آپ ﷺ کے سامنے سرنگوں کھڑے تھے۔ لیکن آپ ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ ’’جاؤ، آج تم پر کوئی گرفت نہیں‘‘۔ یہ لمحہ واضح کرتا ہے کہ حقیقی طاقت انتقام لینے میں نہیں بلکہ معاف کر دینے میں ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا سب سے روشن پہلو آپ کا اخلاق ہے۔ آپ ﷺ نے یتیموں کی کفالت کی، عورتوں کو عزت دی، غلاموں کو آزادی بخشی اور غرباء کو سہارا دیا۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ عدل اور رحم دلی کے اصول اپنائے۔ آپ ﷺ کی ذات ہر اس شخص کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے جو دوسروں کے حقوق ادا کرنا چاہتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی سیرت آج کے پُرآشوب دور میں بھی اسی طرح مشعلِ راہ ہے جیسے چودہ سو برس پہلے تھی۔ آج دنیا دہشت گردی، انتہا پسندی، معاشی ناہمواری، لسانی و نسلی تعصبات اور ماحولیاتی بحران جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی ادارے امن قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں اور طاقتور ممالک کمزور قوموں پر اپنی بالادستی قائم رکھتے ہیں۔ ایسے وقت میں سیرت نبوی ﷺ ہمیں ایک متوازن اور پائیدار حل فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں تو جنگوں کی آگ بجھ سکتی ہے، غربت اور بھوک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور دنیا میں حقیقی انصاف قائم ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج جسے دنیا انسانی حقوق اور مساوات کے اصولوں کے طور پر پیش کرتی ہے، ان کی اصل بنیاد نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ملتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ محض ایک تاریخی داستان نہیں بلکہ ایک زندہ اور عملی دستورِ حیات ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں یہ سکھایا کہ حقیقی قیادت طاقت یا دولت سے نہیں بلکہ خدمتِ خلق، عدل و انصاف اور رحم دلی سے پروان چڑھتی ہے۔ آپ ﷺ کی ذات اس بات کی عملی دلیل ہے کہ طاقت کا اعلیٰ ترین استعمال دوسروں کو معاف کرنے اور کمزوروں کو سہارا دینے میں ہے۔ آج جب دنیا مفاد پرستی اور خودغرضی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، سیرت النبی ﷺ ہمیں اتحاد، محبت اور انسانی عظمت کا درس دیتی ہے۔ اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو عملی طور پر اپنائیں تو یقیناً دنیا ایک بار پھر امن، انصاف اور اخوت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو سیرت نبوی ﷺ ہمیں دے رہی ہے اور جو قیامت تک انسانیت کے لیے چراغِ راہ رہے گا۔
(Email: aahsan210@gmail.com
Leave a Reply