rki.news
خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ہم اس زمانے کے لوگ ہیں جنہوں نے ترقی اور چھت پہ چڑھ کر ناچتی ہوی ترقی اور ساری دنیا کے فرعونوں، یزیدوں اور نمرودوں کو تگنی کا ناچ نچاتی ہوی ترقی دیکھی، مجھے منو بھای کی وہ مشہور زمانہ نظم یاد آ گءی.
اوہ وی خوب دیہاڑے سن
مل جاندا سی، کھا لیندے ساں
نہیں ملدا سی، رو لیندے ساں
روندے روندے سوں جاندے ساں
تے ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
مل جاندا اے، کھا نہیں سکدے
ناں کھایے تے رو نہیں سکدے
جے روییے ناں سوں نہیں سکدے
مجھے اس نظم کے جیسے ہی اپنے بچپن کے وہ سہانے دن یاد آ گیے جب خوش خطی کے لیے نوکدار قلمیں تھیں، گاچنی سے دھلی ہوی خشک تختیاں اور کالی سیاہ، سیاہی جو دوات میں سپنج، خشک سیاہی اور پانی ڈال کر تیار ہوتی تھی، سادگی اپنی انتہاوں پہ اور زندگی اپنی اداوں میں، نفسانفسی کے آثار نظر تو آتے تھے پر انھوں نے بستیوں اورانسانوں کو نہ ہی اپنی آغوش میں لیا تھا، نہ ہی اپنا عادی بنایا تھا، انسان کو انسان کی قدر تھی اور لوگ امن سلوک سے اپنی اپنی زندگیاں گزارتے تھے. ہم ماںکے ہاتھوں کے بنےہوے پراٹھے کھا کر سکول جاتے تھے اور وآپسی پہ ماں ہی کے ہاتھوں کے بنے ہوے کھابے کھا کر مست ہو جاتے تھے، نہ اس زمانے میں کافی کے سیرپس تھے اور نہ ہی چہروں کو چمکانے اور لشکانے والے سیرمز، اب تو زمانے نے ایسی خطرناک چال چلی ہے کہ پیدا ہوتی بچیوں کو ہایڈرافیشیل اور سیرمز کی یوں ضرورت محسوس ہوتی ہے جیسی ہمارے زمانوں میں شاید کسی کو بھی نہ ہ
محسوس ہوتی ہو گی، وہ بڑے سچ ہی کہتے ہیں کہ اونچی دوکان کے پھیکے پکوان، تو جب سے زندگانی میں سیرمز اور سیرپس شامل ہوے ہیں، زندگانی َ عجب سی بے رنگی، اور بد ذایقی ہو گیی ہے.
اور سچ تو یہ ہے کہ ہم فیشن کی اس اندھی دوڑ میں اس طرح سے شامل ہوے کہ دنیا اور دنیا دونوں ہی کو خودسے جدا کر بیٹھے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین
Leave a Reply