rki.news
تحریر : ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری، دوستی، مذہب اور سیاست کا رشتہ نہایت نازک، پیچیدہ اور حساس ہے۔ ایک بزرگ استاد کا یہ قول کہ ’’شاعری کرو مگر مذہب اور سیاست کو دور رکھ کر، اور دوستی کرو تو مذہبی گفتگو میں نہ الجھنا‘‘، بظاہر ایک سادہ سا مشورہ ہے مگر اس کی تہہ میں وہ عمر بھر کی دانش چھپی ہوئی ہے جو صرف تجربے اور فہمِ انسانی سے حاصل ہوتی ہے۔ اس پر غور کرنا اور اس کے زاویے کھولنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بات صرف شعری اور دوستانہ زندگی ہی نہیں، بلکہ ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں بھی اہمیت رکھتی ہے۔
شاعری دل کا آئینہ اور روح کی صدا ہے۔ یہ حسن و عشق، فطرت و وجدان، درد و احساس کی لطافتوں سے مزین ایک ایسا فن ہے جس کا مقصد دلوں کو جوڑنا، احساسات کو جگانا اور انسان کے باطنی کرب کو بیان کرنا ہے۔ جب کوئی شاعر مذہب یا سیاست جیسے منقسم کنندہ موضوعات کو اپنی شاعری کا مرکز بناتا ہے، تو وہ لاشعوری طور پر خود کو ایک خاص فکر، جماعت یا مکتبِ فکر تک محدود کر لیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی شاعری کی آفاقیت مجروح ہوتی ہے اور وہ جذباتی وحدت جو شاعری کا اصل سرمایہ ہے، منتشر ہونے لگتی ہے۔
مذہب اور سیاست دونوں اپنی جگہ نہایت اہم، ضروری اور انسان کی زندگی سے گہرے جُڑے ہوئے شعبے ہیں، مگر یہ دونوں ایسے میدان بھی ہیں جہاں عقائد، نظریات، جذبات، اور تاریخی تجربات کا ٹکراؤ بہت شدید ہوتا ہے۔ شاعری اگر ان میدانوں میں بغیر کسی اعتدال کے داخل ہو، تو وہ اکثر نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کو جنم دے سکتی ہے۔ ایسی شاعری وقتی مقبولیت تو پا سکتی ہے، مگر دیرپا اثر اور قلبی رسوخ سے محروم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شعرا، مثلاً میر، غالب، فراق، اقبال اور فیض نے بھی جب ان موضوعات کو چُھوا، تو کس درجہ کے توازن، گہرائی اور آفاقی زبان کے ساتھ، کہ ان کی شاعری متنازع ہونے کے بجائے متاثر کن بن گئی۔
رہی بات دوستی کی تو یہ انسانی تعلقات میں سب سے نازک اور پاکیزہ رشتہ ہے۔ دوستی کا تقاضا وفا، درگزر، ہم دردی اور خلوص ہے۔ جب اس رشتے میں مذہبی بحث یا نظریاتی ضد داخل ہو جائے، تو یہ خلوص زنگ آلود ہونے لگتا ہے۔ مذہبی گفتگو، خاص طور پر جب وہ مناظرانہ یا دفاعی رخ اختیار کرے، تو نہ صرف جذبات کو بھڑکاتی ہے بلکہ اختلاف کو عداوت میں بدلنے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔ دوستوں کے درمیان فکری فرق کا احترام ایک لازمی عنصر ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جو دوستی کو دیرپا بناتا ہے۔
ہمارے معاشروں میں بدقسمتی سے مذہب کو جذباتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت عام ہو چکی ہے۔ اسی سبب بہت سی دوستیاں، خاندان، حتیٰ کہ معاشرے بٹ چکے ہیں۔ اسی پس منظر میں استاد محترم کی نصیحت نہایت معنی خیز ہے۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ فن کو پاکیزہ رکھو، اس میں ایسی آمیزش نہ کرو جو دلوں کو توڑ دے۔ اور جب دوستی کرو، تو اس کی بنیاد انسانیت، محبت، سچائی اور احترام پر رکھو، نہ کہ مذہبی فوقیت یا عقیدتی حقانیت پر۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مذہب یا سیاست کو شاعری یا دوستی سے مکمل طور پر الگ کر دینا ممکن ہے، کیونکہ شاعر بھی انسان ہے اور انسان اپنے ماحول، فکر اور معاشرتی تجربے سے الگ نہیں ہو سکتا۔ مگر اصل نکتہ یہ ہے کہ جب بھی شاعر یا دوست ان حساس موضوعات سے واسطہ رکھے، تو اس کا اسلوب ایسا ہو کہ فضا میں آگ نہ بھرے بلکہ چراغ روشن کرے۔ وہ دلیل دے مگر دل دکھائے بغیر، وہ سوال اٹھائے مگر تضحیک کے ساتھ نہیں، وہ اپنے سچ کو بیان کرے مگر دوسروں کی سچائی کو جھٹلائے بغیر۔
حقیقی شاعر کا کمال یہی ہے کہ وہ ایک فرقہ، ایک طبقہ یا ایک جماعت کا شاعر نہ ہو بلکہ انسانیت کا شاعر ہو۔ اور سچے دوست کا وصف یہ ہے کہ وہ فکری اختلاف کے باوجود محبت کا دامن نہ چھوڑے۔ استاد کا مشورہ گویا اس عظیم اخلاقی توازن کا اشارہ ہے جس کی بنیاد پر ایک صحت مند معاشرہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ آج کے منقسم معاشرتی تناظر میں اس نصیحت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ یہی فہم و دانش ہے جو ہماری شاعری کو مقبول، دوستی کو دائمی، اور معاشرے کو پرامن بنا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1. اقبالؔ، غالبؔ، اور فیضؔ جیسے شعرا نے سیاسی و مذہبی موضوعات پر لکھا، مگر ان کی شاعری میں آفاقیت کا رنگ غالب رہا۔
2. اردو شعری روایت میں فرقہ وارانہ یا متنازع اشعار کی مثالیں کم ہیں، اس کی ایک وجہ ہمارے اساتذہ کی روایتی دانش بھی ہے۔
3. مذہبی گفتگو اگر احترام و تدبر سے ہو تو وہ تعمیری ہو سکتی ہے، مگر دوستانہ فضا میں اس کے نتائج اکثر منفی نکلتے ہیں۔
4. سماجی نفسیات کے ماہرین کے مطابق فکری اختلاف کو ذاتی مخالفت سمجھنا دوستانہ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
Leave a Reply