تازہ ترین / Latest
  Sunday, December 22nd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

شاعری کا نسائی منظر نامہ اور عنبرین حسیب عنبر

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, April 15th, 2024

(قیصر مسعود،دوحہ قطر)
ادا جعفری کے بعد اردو شاعری کے نسائی منظر نامے میں یہ تبدیلی آئی کہ شاعرات نے کھل کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ورنہ اس سے پہلے تو صورت حال کچھ یوں تھی کہ غزل کے ساتھ اگر شاعرہ کا نام نہ لکھا ہوتا تو بعض قارئین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ مذکورہ غزل کسی شاعر کی ہے یا شاعرہ کی۔اگرچہ ادا جعفری وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے مکمل نسائی لہجے کے ساتھ غزل کہنے کا آغاز کیا لیکن پروین شاکر نے مکمل اعتماد ،جر ات اور بہادری کے ساتھ اس روایت کو یوں آگے بڑھایا کہ آنے والی شاعرات کو خوب حوصلہ ملا۔انھوں نے اپنے مکمل نسائی وجود کے ساتھ شاعری کی وہ راہ نکالی جس پر چلتے ہوئے شاعرات نے اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیات اور حادثات و واقعات کو مصنوعی لبادہ اوڑھائے بغیر سچے اور کھرے انداز میں اپنی شاعری کاموضوع بنایا۔یہی وجہ ہے کہ پروین شاکر کے بعد نسائی شاعری نے اردو ادب میں اپنا الگ مقام بنا لیا ہے۔
اگرچہ عنبرین حسیب عنبر بھی شاعرات کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جس نے اپنی فکر اور جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار کیا ہے لیکن ان کے یہاں ایک شائستگی،پاکیزگی اور تہذیبی حسن پایا جاتا ہے جو انھیں اپنی ہم عصر شاعرات سے منفرد بنا دیتا ہے۔اسی لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ عنبرین حسیب کی شاعرانہ آواز شائستہ،جدید اور منفرد ہے۔
کسی شاعرہ نے کہا تھا کہ : آئی جب اسکے مقابل تو نیا بھید کھلا۔مجھ کواندازہ نہ تھا اپنی توانائی کا۔
عنبرین حسیب کی شاعری کا خمیر اسی توانائی سے اٹھتا ہے۔ان کالہجہ نہایت لطیف،سلجھا ہوا اور دلکش ہے جس میں بے ساختگی کا رنگ بڑی نزاکت اور رچاؤ کے ساتھ آمیخت ہوا ہے۔ان کی شاعری میں مشرقی عورت کی بھر پور جھلک دکھائی دیتی ہے جسے محبت کے جذبات کے اظہار کے دوران بھی اپنی تہذیبی روایات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے:۔
کر جاتے ہو کوئی شرارت چپکے سے۔
چلو ہٹو تم بہت برے ہو،تم بھی ناں
تم ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا
کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں
وقتِ رخصت انا اور محبت کے بیچ
ایک آواز کا حوصلہ رہ گیا
یہ اور بات کہ تو آ گیا محبت تک
مرے لیے تو بہت تھی تری تمنا بھی
عنبرین حسیب عنبر نے تنہائی کے اداس لمحوں اور ہجر کے دکھوں سے ایسی شاعری کو کشید کیا ہے جسے پڑھ کر قاری قنوطیت کی بجائے کتھارسس کے عمل سے سرشار ہونے لگتا ہے۔ان کی شاعری میں وہی دکھ ہے جو ہماری سوسائٹی کی ہر خاتون کا دکھ ہے۔یہ وہی دکھ ہے جو کسی عورت کو اندر سے مضبوط بنا کر اسے معاشرے کی ایک بہادر خاتون کا روپ دے دیتا ہے۔انھوں نے دکھ اور درد کے شاعرانہ اظہار میں ایسی مہارت کا مظاہرہ کیاہے کہ ان کے اشعار دکھ کی جمالیاتی تفہیم کرتے نظرآتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں:
خیال جس کا بھری محفلوں میں ساتھ رہا
اسی کو سوچ رہی ہوں میں آج تنہا بھی

وہ ہم سفر جو نہ ہوتو قدم بھی ساکِت ہیں
اسے کہوکہ وہ لے جائے ساتھ رستہ بھی
جا تو سکتی ہے ابھی وحشت دل بھی لیکن
آہ بھرنے سے نہیں،اشک بہانے سے نہیں

ہم اپنے زخم کریدیں،منائیں جشن ملال
خدا کا شکر کہ اب چارہ گر نہیں کوئی
شبِ فرقت سکوں کی نیندآئی
تمھیں کھونے کا بھی دھڑکانہیں تھا
ہم اپنے آپ سے روٹھے ہوئے ہیں
تماشا یہ کبھی دیکھا نہیں تھا
تری فرقت میں رت جگا مانگے
چشم نم اور کیا بھلا مانگے
تو نہیں تو بتا کہ دستِ طلب
مانگنی ہو تو کیا دعا مانگے

میرا چہرہ مرے خال و خد اوڑھ کر
اس کے ہم رہ کوئی دوسرا رہ گیا
تم بھی مری نظر کے فسوں میں نہیں رہے
میں بھی تمہاری بات سے سرشار اب نہیں
تجھ سے بچھڑے تو یوں لگا جیسے
سر میں پہلے سفید بال کا دکھ
شاعری کی جدید نسائی آواز صرف محبت،عورت کے گھریلو مسائل اور اس کے دالان اور صحن تک ہی محدود نہیں بلکہ عہد حاضر کے جبر،زندگی کی ارزانی اور خوف کی دہشت ناکی بھی اس کا موضوع ہے۔یہی وجہ ہے کہ عنبرین حسیب عنبر ایک مکمل مشرقی عورت ہونے کے باوجود محض اپنی ذات کی خوشیوں اور دکھوں تک محدود نہیں بلکہ سلجھے ہوئے مزاحمتی انداز میں اپنے ارد گرد موجود معاشرتی نا ہمواریوں اور سماجی الجھنوں پر بھی موثر اندازمیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔انھوں نے روایت کے حصار سے نکل کر زندگی کے اُتار چڑھاؤ کا بنظرِ غور مشاہدہ کیا ہے اور اپنے تجربات کو بڑی مہارت سے شاعری کے روپ میں ڈھال لیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے
خلعتِ ظلمت و دستارِ ریا پہنے ہوئے
آپ جو بھی ہیں مگر میرے گھرانے سے نہیں
ہمارے دور میں دالان،چلمنیں ہیں کہاں
عمارتوں کا ہے سیلاب،گھر نہیں کوئی

سنا ہے قحطِ گواہانِ سانحہ کے سبب
ہمارے شہر میں اب معتبرنہیں کوئی
اس زمانے میں جو ہنستا ہے اسے ہنسنے دو
یہ بھی کیاکم ہے کہ جینے کی علامت رہ جائے
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتباردوبارہ نہیں کیا
کیا قیامت ہے کوئی چیز ٹھکانے سے نہیں
یہ شکایت مجھے خود سے ہے زمانے سے نہیں
کاش یہ بات کوئی خضر کو سمجھا دیتا
منزلیں شوق سے ہیں راہ دکھانے سے نہیں
عنبرین حسیب عنبر کا اسلوب سخن سادہ ،دلکش اور پر فکر ہے۔ان کی آوز سیکڑوں آوازوں میں سہولت سے پہچانی جا سکتی ہے۔وہ اپنی آواز کو شور کی بجائے شعور کے اسلوب پر اپنے قارئین تک پہنچاتی ہیں۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوبِ سخن کے ذریعے دنیابھر کے قارئین اور سامعین میں جو مقام پیدا کر لیاہے اسی کے زور پر ادبی دنیا میں معروف و مقبول رہیں گی۔
میرا ثبات ہے اسلوبِ سخن سے میرے
رنگ اڑانے سے نہیں،شور مچانے سے نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International