rki.news
جیسا کہ گزشتہ ابواب میں بیان کیا جاچکا ہے ہم نے پہلا شعر اسکول جاتے ہوئے کہا۔ اس وقت ہم ساتویں جماعت میں تھے۔ گھر کے ماحول کی وجہ سے شعر و شاعری سے واقفیت تو تھی لیکن برائے نام۔ نہ نظم و غزل کے فرق سے واقف تھے نہ قافیہ ردیف ہی کا کچھ علم تھا۔ یہ شعر کیوں اور کیسے موزوں ہوگیا۔”اللہ ہی جانے کون بشر ہے”۔
“فضا میں یہ اُڑتے پرندوں کے جھنڈ
کتنے آزاد ہیں کتنے مختار ہے”
باقاعدہ شاعری کا آغاز 1962 سے ہوا۔ ابتدائی غزلیں وہی روائیتی انداز کی۔ (اس ایک سال میں کہی گئی چند نظموں غزلوں کے علاوہ باقی ابھی تک کسی مجموعے میں شامل نہیں)۔
ہماری خوش قسمتی کہ شہر کے ادبی ماحول کی وجہ سے جلد ہی مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ پاکستان میں شائع ہونے والے رسائل میں بھی چھپنے چھپانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جوابی لفافہ ساتھ رکھا جاتا۔ کیا وضعدار لوگ تھے۔ نہ صرف میری تخلیقات تواتر سے شائع کیں بلکہ پہلے وصولیابی کی اطلاع بھی دیتے۔ میرے پاس آج بھی یہ خطوط محفوظ ہیں۔۔ ناصر زیدی۔۔جون بھائی۔ نسیم درانی۔ جعفر شیرازی۔سیف زلفی۔ سلمان الارشد۔سلطانہ مہر۔ رفیق چودھری۔سیف زلفی۔ناصر زیدی۔مظہر خیری۔ گلزار جاوید وغیرہ۔
1973 میں ائرفورس کی ملازمت اختیار کرلی۔ مختلف شہروں میں تعیناتی کے دوران وہاں کی شعر و ادب کی محافل میں شرکت ہوتی رہی۔ مختصر احوال درجِ ذیل ہے۔
“کوہاٹ: (1981-1973)
کوہاٹ کے شاعر ادیب اردو کے عاشق۔ وہاں کی مرکزی لائبریری کے نگراں جناب ایوب صابر کے توسط سے شاعروں سے تعارف ہوا۔ ہندکو، پشتو
میں شعر کہنے والے اردو شاعری میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے:
دس بیس نہیں ایک ہی انسان دکھادو
ایسا کہ جو باہر سے بھی اندر کی طرح ہے
(ایوب صابر)
ہم نے کوہاٹ میں سب سے پہلے وہاں کی لائبریری کا رخ کیا۔ ایک بھاری بھرکم شخصیت کتابوں کے شیلف کے درمیان کام میں مصروف نظر آئی۔ تعارف کروانے پر بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ فورا” ہی قہوہ آگیا۔ پیتل کے ٹانکے لگی چینک اور چھوٹی چھوٹی پیالیاں۔ ہم تقریبا” گھنٹہ بھر بیٹھے۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ اس دوران قہوے کے کئی دور چلے۔ رخصت ہوتے ہوئے ہم نے کہا کہ پھر ملاقات ہوگی۔ جواب ملا “خوامخواہ” ہمیں بہت عجیب سا لگا۔
چند روز بعد ہم نے پھر لائبریری کا رخ کیا۔ ایوب صابر بڑے تپاک سے ملے کچھ اور احباب سے تعارف ہوا۔ قہوے کے کئی دور کے بعد اجازت چاہی۔ ہم نے کہا کہ بچوں کو لینے کراچی جارہے ہیں۔ واپسی پر کسی روز
فیملی کے ساتھ آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوں گے۔ جواب میں وہی جملہ “خوامخواہ”۔ ہم بہت جِز بِز ہوئے۔
ہفتے کے بعد ایک مشاعرے میں شرکت کی اطلاع ملی۔ ایوب صابر نے ملاقات ہونے پر بچوں کے ساتھ گھر آنے کی دعوت دی ہم نے حامی بھری تو مسکرا کر بولے “خوامخواہ”۔ اس بار ہم نے پوچھ ہی لیا کہ آپ ہمارے جواب میں یہ خوامخواہ کیوں کہتے ہیں۔ ایوب صابر کو ہمارے لہجے سے اندازہ ہوگیا کہ ہمیں یہ پسند نہیں۔ قہقہہ لگا کر بولے خسرو صاحب یہ اردو کا خوامخواہ نہیں پشتو کا ہے ۔ اس کے معنی “ضرور، بے شک، بسروچشم” کے ہیں۔ اب قہقہہ لگانے کی باری ہماری تھی۔
ریکروٹ ٹرینگ اسکول کے آفیسر کمانڈنگ گروپ کیپٹن محمد حسن صفدر اچھے شاعر تھے۔ انہوں نے ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا۔۔ پنڈی اسلام آباد کے شعراء بھی شریک ہوئے۔ احمد فراز کے والد آغا برق کوہاٹی کی صدارت تھی۔ میری پوسٹنگ بھی وہیں تھی۔ شرکت کا موقع ملا۔
“مشاعرے کے شرکاء”
افسر الشعراء آغا محمد شاہ برق کوہاٹی۔
ماہر نقوی۔ قتیل شفائی۔فارغ بخاری۔عزیز اختر وارثی۔اسرار زیدی۔عبدالعلی شوکت۔ایوب صابر۔ شرر نعمانی۔پروفیسر اشرف بخاری۔ تاج سعید۔ فیروز خسروؔ۔ (مقامی اخبار کا عکس شامل ہے)
کوہاٹ میں جناب ایوب صابر کی سرکردگی میں شعری نشستیں باقاعدگی سے منعقد ہوتی تھیں۔ بہت پرخلوص، مہمان نواز، محبت کرنے والے لوگ ملے ہم جہاں بھی گئے:
عزیز اختر وارثی۔ شجاعت علی راہی۔ انجم بریلوی ۔ عطوف شفیق۔ شاہد زمان ۔ گروپ کیپٹن محمد حسن صفدر۔ عبدالعلی شوکت۔ کچھ عرصے کے لیے مظفر علی سید کی پوسٹنگ بھی کوہاٹ ہوگئی تھی۔
شجاعت علی راہی سے ہماری واقفیت کوہاٹ آنے سے پہلے کی تھی۔ سبب ان کا شعری مجموعہ “برف کی رگیں” جو ہم نے خیرہور میں ہوتے ہوئے ان سے ڈاک کے ذریعے منگوایا تھا۔ راہی صاحب کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے باہر چلے گئے۔ آج کل کوہاٹ ہی میں مقیم ہیں۔بڑے نفیس آدمی ہیں۔
شبنم رومانی کے گہرے مراسم گروپ کیپٹن محمد حسن صفدر کے ساتھ تھے۔ ہفتوں ان کے پاس کوہاٹ آکر رہتے۔
کورنگی کریک: (1985-1982)
اس کا احوال قسط نمبر 47 میں بیان کیا جاچکا ہے۔
“سرگودھا” : (1992 – 1988)
سرگودھا کی ادبی شخصیات سے ہمارا تعارف جناب انور سدید کے رسالے “اردو زبان” کے ذریعے ہوا۔ سرگودھا کیڈٹ کالج میں تقریبا” دو سال ہم رہے۔ وہاں کی شعری نشتوں میں شرکت رہی۔ ایک نابینا شاعر پروفیسر محمد اقبال نے بہت متاثر کیا۔ کمال شخصیت۔ اپنی معذوری کو انہوں نے مجبوری نہیں بنایا۔
“کوئٹہ”
کوئٹہ ہمارا آنا جانا رہا۔ کبھی آفیشل اور کبھی احباب کی دعوت پر۔
استاد رشید انجم کے بعد ان کے شاگردِ رشید پروفیسر صدف چنگیزی کی شخصیت ایک ادارے کی سی ہے۔ دبستان بولان کے صدر ہیں ۔ ان کے ساتھ زاہد آفاق بڑی خوبیوں کے مالک۔ شعر و ادب کی محفلیں سجاتے رہتے ہیں۔ اردو ادب سے محبت کرنے والی شخصیات اس پرآشوب فضا میں محبتوں کے پھول نچھاور کرنے میں مشغول ہیں۔ نوید حیدر، جہاں آرا تبسم، ریاض ندیم۔ عجب ساحل۔ زبیر آحمد فارقی وغیرہ۔
“پنڈی اسلام آباد”- (1997-1994)
ائرہیڈکوارٹرز پوسٹنگ کے تین سال ہم پنڈی اسلام آباد کی شعروادب کی محافل میں شریک ہوتے رہے۔ حلقہء اربابِ ذوق کی تنقیدی نشستیں نہایت پابندی سے منعقد ہوتی رہیں۔ یہاں کے احباب نے جس محبت اور خلوص کا برتاؤ ہمارے ساتھ روا رکھا اس کی خوشگوار یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ غضنفر ہاشمی، امداد آکاش، عبید بازغ امر، محبوب ظفر کی محبتیں شاملِ حال رہیں۔ (جاری ہے)
(فیروز ناطق خسروؔ)
Leave a Reply