عامرمُعانؔ
شام میں انقلاب آ گیا اور بشر الاسد کی والد حافظ الاسد کے دور سے قائم حکومت کا 54 سال بعد خاتمہ ہو گیا۔ آخر بشر الاسد کی حکومت کے خلاف بغاوت کیوں ہوئی؟ یہ سوال شائد جتنا آسان ہے اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔
~ وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
شام جو 1920 میں پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فرانس کی سرپرستی میں وجود میں آیا اور 1946 میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن خطے میں موجود انتشار کی وجہ سے داخلی و خارجی جنگوں میں برسر پیکار رہا ۔ 1949 سے 1963 تک مختلف بغاوتوں سے گزرتے ہوئے انتشار میں ہی مبتلاء رہا ۔ 1970 میں حافظ الاسد کے برسر اقتدار آنے سے یہ امید قائم ہوئی کہ شام کو ایک مضبوط حکومت کی وجہ سے موجود داخلی و خارجی مشکلات سے نجات مل جائے ۔
1970 سی 2014 تک کے 54 سالہ دور اقتدار بھی مکمل طور پر شام میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ اور مسلح جدوجہد انسانوں کے خون سے رنگین ہوتی رہی ۔
کیا وجہ ہے کہ پچاس سال سے زائد عرصہ پر محیط حکومت آخر عوام کے دلوں پر اپنی حکومت قائم کیوں نہیں کر سکی اور فرار پر اختتام پذیر ہوئی ، تو اس کی وجہ عام عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا بنیادی وجہ رہی جس کی وجہ سے عوام جدوجہد کے راستے میں مسلسل مصروف عمل نظر آئی ۔ اس جدوجہد کی تاریخ تو حافظ الاسد کے دور سے ملتی ہے جب بغاوت کچلنے کے لئے اہل حماہ پر شام کی تاریخ کا شدید تشدد کیا گیا تھا ۔ بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا تھا ۔ جس کو اہل حماہ آج 40 سال گزرنے پر بھی نہیں بھول سکے ہیں۔ جبکہ بشر الاسد کے موجودہ اقتدار کے خلاف 2011 سے یہ مسلح جدوجہد جاری ہے جس میں 2024 تک ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ لوگ مارے گئے ہیں ۔
ابو عبد اللہ الجولانی جن کا اصل نام احمد حسین الشرح ہے نے 2016 میں القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر کے شام کی جدوجہد میں ایک جماعت کا اعلان کیا جس کا نام ہیئت التحریر الشام ہے ۔ اور اس جماعت کے تحت اس انقلاب کے راستے کو مسلح جدوجہد سے پایہ تکمیل پہنچایا گیا ہے ۔
کہیں بھی جب حکمران خود کو عوام کیساتھ جوڑ نہیں پاتے ہیں ، تو ان کا دور حکومت جتنا بھی طویل ہو جائے ان کی حکمرانی زمین پر تو قائم رہتی ہے لیکن دلوں پر قائم نہیں ہو پاتی ۔ اور اسی کی وجہ سے ایک انقلاب کے لیے آہستہ آہستہ راہ ہموار ہوتی جاتی ہے۔
لیکن شام کا انقلاب کوئی اتنی سادہ کہانی بھی نہیں ہے بلکہ یہ عالمی طاقتوں کی آپس کی لڑائی دوسری سر زمین پر لڑنے کی ماضی کی تاریخ سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں بھی مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کے مطابق ہر دو کی حمایت میں فعال کردار کے ساتھ موجود ہیں ۔ روس اور ایران جو عرصہ دراز سے اس حکومت کی حمایت میں کھل کر موجود رہے اور موجودہ جدوجہد کو 14 سال سے بشر الاسد کی حمایت میں کچلنے میں کامیاب چلے آ رہے تھے ۔ تو دوسری طرف امریکہ قطر اور سعودیہ اس تمام عرصے میں ابو عبداللہ الجولانی کو کھل کر مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے رہے اور جدوجہد کی کامیابی تک پہنچنے میں بھرپور کردار ادا کرتے نظر آئے۔
روس جس نے یوکرین محاذ کھول کر اپنی توجہ اس طرف زیادہ کر لی تھی ۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی رہی جس کا امریکہ شام میں بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا۔ یہاں مختلف ممالک کے معاشی ، سیاسی مفادات نے ملک شام کو کھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ان کے مفادات خطہ زمین سے زیادہ وابستہ رہے ۔ اور عوام کے بارے میں سوچنے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی
اس 13 سالہ جدوجہد میں 10 لاکھ شامی مروانے اور 30 لاکھ تارکین وطن ہونے کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ شام کے اصل وارث ان کی عوام کو اس بات کا فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ اپنے ملک کے لئے کیا بہتر فیصلہ کرتے ہیں کہ دوبارہ ملک خانہ جنگی کی طرف نہ جائے ۔ کیونکہ دیگر ممالک اپنے مفادات کے تحت شام میں امن ہوتا دیکھنا زیادہ پسند نہیں کریں گے ۔
ابو عبد اللہ الجولانی نے فی الحال عام معافی کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے تاکہ حالات معمول پر آ سکیں اور اقتدار کی منتقلی کی راہ ہموار کی جا سکے۔
بشر الاسد جو انتخابات میں زور زبردستی کامیابی حاصل کر کے عوامی حمایت کا ڈھول پیٹتے رہے تھے کی یوں ملک سے فرار ہونے کی وجہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جن پودوں کی جڑیں عوام میں مضبوط نہیں ہوتیں ان کے لئے راہ فرار ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ چاہے وہ زبردستی اقتدار سے جتنا مرضی جڑے رہیں۔
~ کھولنے دیکھو لگا ہے وقت سب تعزیر اب
جو پس دیوار تھے وہ جرم بھی کھلنے لگے
شام میں استحکام لانے کے لئے بہت زیادہ بردباری اور حکمت کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ان کے نا صرف حقوق دئیے جا سکیں بلکہ عوام کی صحیح معنوں میں منتخب کردہ حکومت کو یہ ذمہ داری دی جا سکے کہ وہ عوام کی فلاح کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے اور ملک میں موجود تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد میں مکمل ہم آہنگی کی فضا قائم کر سکیں
~ اب بھلا دو نفرتوں کو پیار کے نغمے لکھو
اب ضرورت ہے محبت کے شجر ہوں چار سو
Leave a Reply