rki.news
تحریر ۔۔عامر سہیل
بام و در اداس ہیں، آنکھوں میں اشک رواں ہیں، تصور میں کربلا میں ہونے والے مظالم گھوم رہے ہیں کہ کس طرح ایک عجب منظر تھا کہ اولادِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے لعین، ہر سمت، ہر جانب ایک ہُو کا عالم لگتا ہے،سوچ کر بھی کلیجہ کانپ اٹھتا ہے کہ کس طرح رخِ روشن کے مالک مولا حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے جاں نثاروں کو ایک ایک کر کے شہید کیا گیا، کوئی ایسا ظلم نہیں تھا جو نعرہ حق سرہ بلند کرنے والوں پر روا نہ رکھا گیا ہو، ظلمت کی پھونک سے بہتّر زندگیوں کے چراغ گُل کر دے گیے، وہ بھی کس واسطے ،کہ یزید لعین کی بیعت نہیں کی میرے مولا نے،محرم کے لیل و نہار ہر مسلمان کیلئے بہت ہی رنجیدہ اور پرسے کی حالت میں گزرتے ہیں کہ جن میں اپنے اپنے انداز میں غمِ حسین رضی اللہ عنہ منایا جاتا ہے،ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں نوحہ گر ہے، وہ پیاس یاد آتی ہے جو تین دن کی طویل پیاس تھی، گرم ریت پر حسین ابنِ علی علیہ السلام نے پیغامِ حق لکھ دیا، بے مثال صبر اور بے نظیر جرات کا مظاہرہ کیا گیا، ہر طرف لاشے ہی لاشے تھے مگر پھر بھی ہمت کمال تھی، آج سُن کر کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے، جب نواسہ۶ رسول،جگر گوشہ۶ بتول دشمنوں کے نرغے میں تھے تو کس قدر دشمن شمر نے، لعین نے، خبیث نے آپ پر ظلم کی انتہا کی، اس بدبخت عدو کا دل اس سے بھی نہیں بھرا اور پھر گھوڑے بھی آپ رضی اللہ عنہ کی لاش پر دوڑائے گئے، اس قدر پامالی دیکھ کر آسمان رو رہا تھا، زمین پر مٹی سرخ ہو گئی، ہر ذی روح تڑپ رہا تھا مگر ان لالچ کے ماروں، حرص کے پجاریوں اور طمع کے مریدوں کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، چند سکوں کے عوض، زمین کے چند ٹکڑوں کے بدلے اولادِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی لشکر کشی کی اور بے دردی سے شہید کر دیا،اللہ تعالیٰ کو امتحان مقصود تھا،ورنہ فلک کی بے کرانی امام بھی دیکھ رہے تھے، فرات کے پانی کا بے چین ہو کر کناروں میں سر مارنا وہ بھی دیکھ رہے تھے، فرشتے قطار اندر قطار ان کی مدد کو بھی آ سکتے تھے مگر وہ آزمائش کو پورا کر رہے تھے، اللہ کی رضا میں راضی بہ رضا تھے، اس خدائے لم یزل کے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر چکے تھے، دنیا و آسمان کی ہر چیز مدد کو آئی تھی مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے منع کر دیا کہ یہی مقصودِ مالکِ کل جہاں تھا، مالک کی رضا میں، معبود کی منشا میں یہ عبد خوش تھا، یہ تو ایک شرف تھا جو وہ حاصل کر رہے تھے، سجدے میں سر کو کٹا دیا مگر اُف تک نہیں، اپنے پیاروں کے لاشے اٹھائے، انہیں سامنے زخم کھاتے دیکھا مگر پھر بھی شکایت نہیں کی کیوں کہ وہ راستہ منتخب کیا تھا جو قسامِ ازل کی طرف سے چنیدہ تھا،کیسے کیسے خوب رو جوان، کیسے کیسے نڈر اور جری علم بردار، کیسے کیسے کم سن جوان، کیسے کیسے خوش شکل انسان، کیسے کیسے خوش جمال لوگ قربان کر دیے، امام عالی مقام کو کسی چیز کی حاجت نہیں تھی، وہ تو بس کب سے لکھا گیا فرمانِ الٰہی پورا کر رہے تھے، اسلام کی توقیر بچا رہے تھے، اسلام کی عظمت میں اضافہ کر رہے تھے، دین کی سر بلندی کیلئے سر کٹوا رہے تھے، لطف و اکرام کی بارشوں کا سبب کر رہے تھے، رحمتِ عالم سے مودت، الفت اور بے لوث چاہت کا رشتہ نبھا رہے تھے، واقعہ کربلا کے بعد اسلام کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی، جسے ہم صبحِ نو بھی کہہ سکتے ہیں، اللہ کی رضا تھی کہ اس نے ایک خاک کے پتلے کو اتنا سرفراز کر دیا، آج چہار عالم، شش جہات، حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ کے نام کا ڈنکا بجتا ہے، ان کی تعریف و تحسین بجا لائی جاتی ہے اور یزید پر فقط لعنتیں نچھاور کی جاتی ہیں،وہ جو اپنی طاقت سے اسلام کے منافی اقدامات اٹھانا چاہتا تھا اس کے آگے امام عالی مقام ڈھال بن گئے، وہ جو اپنے غیر شرعی فیصلے مسلط کرنا چاہتا تھا ان فیصلوں کو امام نے یکسر رد کر دیا، اس لیے تو یزید ظلمت کا حوالہ بن کر رہ گیا، اس کے ارادے خاک میں مل گئے، اسے اس کی کرنی کا پھل مل گیا، اب ابد تک امام کی سچائی، بہادری، جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روش برقرار رہے گی، تفرقوں کے جالے سے نکل کر فلسفہ کربلا کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فشار زماں میں الجھے شخص کو حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ عظمت کو سمجھنا ہو گا اور ان کے طریق پر عمل پیرا ہونا ہو گا، کیوں کہ یہی تو زادِ سفر میں سب سے بہترین چیز ہو گی۔
جلتے تھے ہونٹ پیاس سے، دریا تھا سامنے
لیکن وقارِ تشنگی، ٹھہرا تھا سامنے
تنہا ہو جیسے کوئی دیا آندھیوں کے بیچ
ایسے وہ اُس ہجوم کے آیا تھا سامنے
خیموں میں آگ، ریت پہ لاشے پڑے ہوئے
ڈھلتی تھی دھوپ، شام تھی، صحرا تھا سامنے
لاکھوں کی تھیں حسین پہ نظریں لگی ہوئیں
لیکن وہاں تو ایک ہی رستہ تھا سامنے
یہ بھی نہیں کہ اس کو سزا کی خبر نہ تھی
ہونا تھا جو بھی فیصلہ، لکھا تھا سامنے
اک پل میں روشنی کے معانی بدل گئے
اس نے عجب چراغ سا رکھا تھا سامنے!
لکھتا تھا ریت پر وہ لہو سے پیامِ حق
دل کی ہر ایک بات وہ کہتا تھا سامنے
دستِ یزید میں نہ دیا ہاتھ ایک بار
ورنہ ہر ایک غم کا مداوا تھا سامنے
پیچھے تھی چیختی ہوئی زینب، برہنہ سر
عباس کا کٹا ہوا لاشہ تھا سامنے
تھا صبر بے مثال تو جرات تھی بے نظیر
اس آخری نگہ نے بھی، دیکھا تھا سامنے
حاضر تھے واں سلام کو تارے بھی، اشک بھی
مقتلِ حسین رضی اللہ عنہ ابنِ علی کا تھا سامنے
(امجد اسلام امجد)
Leave a Reply