rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
سبطے کی سانس پھولی ہوی تھی، گال غصے کی شدت سے لال اور ہونٹ کالے سیاہ ہو رہے تھے، وہ بار بار اپنا ہاتھ ماتھے پہ مار کے دوہاییاں دیتی، روتی، پھنکارتی اور اس کا ہدف کوی اور نہیں اس کے شوہر کا باپ یعنی اس کا اپنا سسر تھا، تھی نہ شرمناک بات، چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام، وہ سسر جو اسے ڈھول باجے بجا کے دھوم دھڑکے سے باراتیوں کے جھرمٹ میں بڑی شان سے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے باجوں گانوں کے سنگ بیاہ کر لایا تھا ، وہ زمانے بھی سادہ تھے اور زندگی میں کسی قسم کا دکھاوا یا بناوٹ نام کو بھی نہ تھی ، اول تو دولہن کی کچھ خاص تیاری ہوتی نہ تھی لہنگا یاشرارہ پہن کے گھر پہ ہی تیار ہو جاتی تھی نہ بیوٹی پارلر کے جھنجھت یا برینڈز کا عذاب تھا ، تو شادی ہوی آبادی ہوی بچے ہوے، بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہونے لگے، پلک جھپکتے ہی زندگی کی شام ہو گءی، سبطے کے سسر تو سبطے کی شادی کے وقت بھی ریٹائرڈ لایف ہی گزار رہے تھے مگر اب پچیس سال بعد کمر خمیدہ، نگاہ پوشیدہ اور گوڈے بریدہ ہو چکے تھے، ان کی زوجہ محترمہ یعنی سبطے کی ساس پچھلے سال سردیوں میں چلتی پھرتی ہی بخار کا شکار ہویں اور صرف ایک دن بستر پہ رہ کے آنجہانی ہو گییں، عزت کے ساتھ بڑھاپے میں موت آ جاے تو اس سے بڑی سعادت اور ہوتی کوئی نہیں ہے، خیر ساس تو عزت سے روانہ ہو گییں پیچھے سے بد بختی آ گءی حاجی رحمن باسط کی، جن کا وجود سبطے کی آنکھوں میں شیشے کی کرچیوں کی طرح چبھنے لگا، بہانہ اس نے میاں کے سامنے یہ بنایا کہ چونکہ ابا جی اب بہت ضعیف ہو چکے ہیں اور انھیں اعلیٰ نرسنگ کییر کے لیے اولڈ ہوم. شفٹ کرنا نہ صرف گھر والوں بلکہ خود رحمن باسط صاحب کے لیے بھی بہت اچھا اقدام ہو گا.
زندگی میں یہ موڑ انتہائی بوجھل، درد بھرا، خوفناک اور اذیت ناک ہوتا ہے جب وہ والدین جنہوں نے منتوں مرادوں اور بڑی چاہت سے بچے پیدا کر کے انھیں پال پوس کے کسی قابل کر کے دنیا میں شان سے جینے کے قابل کیا ہوتا ہے اور وہ بچے منہ بنا بنا کے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمارے لیے کیا، کیا ہے.
We are self. made
یہاں اپنے ہی ایک شعر سے خلاصہ کرنا چاہوں گی.
تو میرے ہاتھوں کا پالا بچہ
اب سہاروں کی بات سے آگے
پیارو ،ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور کہیں بھی نہیں ہوتا، آشیانہ تنکا تنکا جوڑنے سے بنتا ہے اور آشیانہ بنانے میں انسان کی عمر گزر جاتی ہے ہاں اسے توڑنا ایک پل کی بات ہے. تو آج کل بہووں نے ایک اور گل فتنی چھوڑ رکھی ہے کہ شوہر کے والدین کی دیکھ بھال زوجہ کی نہیں، شوہر کی ذمہ داری ہے، اخلاقی، سماجی اور شرعی لحاظ سے، کیسے بھی؟؟؟؟ ؟
جب میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوے، شوہر گھر، والدین، بیوی اور بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کا پابند ہوا تو بیوی جو شوہر سے سارا کچھ لیتی ہے تو کیا اخلاقی طور پہ اپنے شوہر کے والدین یعنی اپنے ساس سسر کو سنبھالنے جیسا معمولی کام بھی نہیں کرسکتے؟
تو مطلب ہم ایک مصنوعی، مادہ پرستی، نمود و نمایش کے زمانے کے باسی ہیں، ہم وقتی کی تنگی کا رونا روتے ہوے اپنا سارا وقت فون کی سکرین کے مصنوعی جہان کو دے دیتے ہیں اور وہ شوہر جو ہمارا پاسبان ہوتا ہے، ہمارا نگہبان ہوتا ہے، ہمارا آسرا ہوتا ہے، ہمارا پالن ہار ہوتا ہے، ہمارے بچوں کا باپ اور پہارے دکھ سکھ ساتھی، جس کے ساتھ ہمارے مرنے جینے کے وعدے ہوتے ہیں، جس کے ساتھ ہم زندگی کے سارے گرم سرد، ہنس کھیل کے ہنسی خوشی گزار دیتے ہیں اس کے بوڑھے ضعیف والدین کو کیا کوی خلای مخلوق سنبھالے گی نہ جی اخلاقی لحاظ سے بلکہ میں تو ہمیشہ اس بات پہ سب کو آمادہ کرنے کی کوشش کروں گی کہ ہمیشہ اپنے سسرال والدین یعنی ساس سسر کی دل و جان سے خدمت کیجیے اور اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کرواییے اور ویسے سو باتوں کی ایک ہی بات کہ
وہی سہاگن جسے پیا چاہے، تو اپنے شوہر کی نظر میں سرخرو ہونے کے لیے شوہر کے والدین کی خدمت کے لیے دل و جان سے کمر بستہ ہو جاییے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. Naureen 1@i cloud.com
Leave a Reply