rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ہر اس چیز سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جس میں مٹھاس ہو، خواہ وہ قدرتی ہی کیوں نہ ہو۔ اس سوچ نے شکرقندی جیسی مفید نعمت کو بھی بعض اوقات “ممنوعہ خوراک” کے زمرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ لیکن کیا واقعی شکرقندی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے؟ یا پھر یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے مزید تحقیق، تدبر اور توازن کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے؟
شکرقندی، جو اپنی مٹھاس، رنگت، اور غذائیت سے بھرپور ساخت کی بنا پر مختلف معاشروں میں قدیم زمانے سے استعمال ہوتی آ رہی ہے، نہ صرف ایک ذائقہ دار خوراک ہے بلکہ اپنے اندر وہ خصوصیات بھی رکھتی ہے جو انسانی جسم کے نظام ہضم، اعصابی ساخت، اور قوت مدافعت کو تقویت دیتی ہیں۔ اس میں موجود ریشہ، وٹامن A، C، B6، اور معدنیات جیسے پوٹاشیم و میگنیشیم، صحت کا خزانہ ہیں۔ مگر ان سب خوبیوں کے باوجود جب بات ذیابیطس کی ہو، تو ہر خوراک کو محتاط انداز میں پرکھنا لازم ہو جاتا ہے۔
ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جو جسم میں انسولین کی کارکردگی سے وابستہ ہے، اور غذا میں شامل شکر کی مقدار کا خون پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی لیے مریض اکثر ہر اس خوراک سے گریز کرتے ہیں جو قدرتی یا مصنوعی مٹھاس رکھتی ہو۔ مگر یہ ایک سادہ سوچ ہے جسے تفصیل کی گہرائی میں لے جانا ضروری ہے۔
شکرقندی کا گلیسیمک انڈیکس نسبتاً درمیانی سطح پر ہوتا ہے، یعنی یہ خون میں شکر کی سطح کو اچانک اور خطرناک حد تک نہیں بڑھاتی۔ خاص طور پر اگر اسے ابال کر استعمال کیا جائے، تو اس کا اثر آہستہ اور متوازن ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو جدید سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ ہے اور جسے غذائی ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔
شکرقندی میں شامل قدرتی ریشہ ہاضمہ بہتر کرتا ہے، اور اس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار دھیرے دھیرے بڑھتی ہے، یوں انسولین پر اچانک بوجھ نہیں پڑتا۔ اس کے علاوہ یہ ریشہ طویل المدت سیری کا احساس پیدا کرتا ہے، جس سے غیرضروری کھانے کی خواہش کم ہوتی ہے، اور یوں وزن اور شکر کی سطح دونوں قابو میں رہتی ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ شکرقندی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جسم میں سوزش کو کم کرتے ہیں، جو کہ ذیابیطس کی ایک بنیادی پیچیدگی ہے۔ اسی طرح، وٹامن A، جو آنکھوں کی بینائی کے لیے نہایت اہم ہے، ذیابیطس کے مریضوں میں آنکھوں کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔
یقیناً، ہر جسم کی ساخت، مزاج، اور ذیابیطس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے شکرقندی یا کوئی بھی دوسری خوراک اپنا اثر ہر فرد پر یکساں نہیں دکھاتی۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ شکرقندی کو محض اس کے ذائقے یا نام کی بنیاد پر مکمل طور پر غذا سے خارج کر دیا جائے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شکرقندی کو دیگر غذاؤں کے ساتھ کس انداز سے کھایا جاتا ہے۔ اگر اسے پروٹین یا چکنائی سے بھرپور اشیاء مثلاً اُبلا ہوا انڈا، دہی یا دال کے ساتھ کھایا جائے، تو اس کا اثر مزید معتدل ہو جاتا ہے۔ یہی متوازن خوراک کا اصول ہے جس پر طب اور غذائی سائنس کا دارومدار ہے۔
آخر میں، شکرقندی کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مضر قرار دینا ایک سطحی سوچ ہے، جو جدید تحقیق کے برعکس ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ استعمال میں اعتدال برتا جائے، طریقۂ تیاری مناسب ہو، اور مریض اپنی انفرادی کیفیت کو مدِنظر رکھے۔ بہتر یہی ہے کہ کسی ماہر غذائیت یا معالج سے مشورہ کیے بغیر کسی خوراک کو مکمل طور پر ترک نہ کیا جائے۔
شکرقندی نہ صرف ایک ذائقہ دار خوراک ہے بلکہ اگر سلیقے اور تدبر سے استعمال کی جائے تو یہ ذیابیطس کے مریضوں کی زندگی میں خوش ذائقہ توازن کا خوبصورت اضافہ ثابت ہو سکتی ہے۔
Leave a Reply