Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شکیل ارشد: ایک پرجوش آواز جو خاموش ہوگئی۔

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, August 4th, 2025

rki.news

یہ 1979 کی ایک سنجیدہ اور اداس شام تھی۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے میڈیکل سی وارڈ میں میرا ایک قریبی عزیز داخل تھا۔ اُن دنوں میں لنڈی کوتل کالج میں ایف ایس سی کا طالبِ علم تھا۔ ویک اینڈ پر جب کالج سے واپسی ہوئی، تو گاؤں جانے کے بجائے سیدھا ہسپتال جا پہنچا۔ میرا تایا زاد بھائی گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل تیمارداری میں مصروف تھا، تو میں نے ہمدردی کے تحت اسے گاؤں واپس بھیج دیا اور خود وارڈ میں رک گیا۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ وارڈ میں ایک عجب سا سنّاٹا تھابس کہیں دور سے کسی مریض کی ہلکی سی کراہ سنائی دیتی یا نرس کے دبے قدموں کی چاپ۔ تبھی، اسی رات کے کسی پہر، ایک نیا مریض وارڈ میں لایا گیا۔ یہ کوئی عام مریض نہ تھا—یہ ریڈیو پاکستان کے اُس دور کے درخشاں اناؤنسر شکیل ارشد صاحب تھے، جن کی آواز کا جادو پورے صوبے میں گونجتا تھا۔

اس وقت میڈیکل سی وارڈ، سوئیکارنو چوک کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی واقع ہوتا تھا۔ اب کا پتہ نہیں کیونکہ مجھے بھی ملک سے باہر تقریبا اکتالیس برس ہوگئے ہیں ۔ اُس شب کوئی ڈیوٹی ڈاکٹر موجود نہ تھا، نہ اضافی عملہ۔ صرف ایک نرس تنِ تنہا وارڈ کے تمام مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ کچھ مریض لاوارث سے لگتے تھے، کسی کا کیتھیڈر بدلنا تھا، کسی کو دوا دینی تھی۔ تو یہ بیچاری خود سارے کام کرتی تھی ۔میں نے بھی انسانی جذبے کے تحت نئے آنے والے مریض کو بیڈ پر منتقل کرنے میں مدد دی۔
اُس نرس کا جذبہ مسیحائی دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ تنہا، خاموش، مگر ہر کام میں غیرمعمولی سنجیدگی اور خلوص—اس دن مجھے احساس ہوا کہ نرسیں صرف خدمتگار نہیں ہوتیں، وہ دراصل لوگوں سے خاموش دعائیں وصول کرنے والی روحیں ہوتی ہیں۔

ابھی شکیل صاحب کو آئے کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ تین فیشن ایبل نرسیں وارڈ میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے سٹاف نرس سے شکیل ارشد کے متعلق پوچھا، اور پھر اُن کے بستر کے گرد منڈلانے لگیں۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ سب ان کی آواز کی پرستار تھیں۔ وہی آواز، جو ستر کی دہائی میں ریڈیو پر چھا چکی تھی۔ جس کا کمرشل پروگرام سننے کو لوگ ریڈیو کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس دور میں مشتاق شباب صاحب ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر تھے، اور انہی کے زیرِنگرانی یہ آواز پروان چڑھی تھی۔

اگلے روز ریڈیو کے کئی مشہور نام تیمارداری کے لیے آئے۔ میں چونکہ اکثر ان کی آوازیں سنتا آیا تھا، لہذا چند چہروں کو اوازوں سے فوراً پہچان لیا—ان میں شاکرہ صدیقی صاحبہ بھی شامل تھیں، جن کے گھنگریالے بال اور نرم لہجہ مجھے آج بھی یاد ہے، اور شاید ناجی خان مرحوم بھی ہمراہ تھے۔

اس کے بعد میں واپس کالج چلا گیا۔ وقت گزر گیا، دن مہینوں میں، مہینے برسوں میں بدل گئے۔ اور پھر کوئی پینتیس سال بعد، ریڈیو پاکستان کے مرکزی دفتر میں میری شکیل ارشد صاحب سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔ میں نے فوراً پہچان لیا—وہی شخص، وہی نام، مگر اب ایک سناٹا اس کے وجود میں اتر آیا تھا۔ میں نے گفتگو کی کوشش کی، پر وہ بہت مختصر جواب دیتا، نظریں پھیر لیتا، اور کسی اور سمت متوجہ ہو جاتا۔ دل میں خیال آیا—یہ وہی شخص ہے جو کبھی “طوطے کی طرح” بولتا تھا، اور آج ایسا گم گو، جیسے وقت کے شور میں خود کو کھو چکا ہو۔

میں نے اپنے مرحوم دوست لائق زادہ سے بھی پوچھا، مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ شاید وہ بیمار تھا، یا وقت کی بےرحمی نے اُسے زندگی سے کنارہ کش بنا دیا تھا۔ جیسے کوئی درویش وقت سے پہلے ہی خلوت نشین ہو جائے۔

آج، جب شکیل ارشد کی موت کی خبر سنی، تو دل بیٹھ سا گیا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ ہر کان میں رس گھولتا تھا، اور آج اُس آواز کا سفر مکمل ہو گیا۔ وہ آواز جو کبھی ریڈیو کی روح تھی، اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ شکیل ارشد صاحب کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند کرے، اور اُن کی یاد کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھے۔ آمین۔


One response to “شکیل ارشد: ایک پرجوش آواز جو خاموش ہوگئی۔”

  1. Feroz khan says:

    ماشاءاللہ ۔۔۔اللہ پاک سب گزرے ہوئے بزرگوں دوستوں اور بہی خواہوں کو غریق رحمت فرمائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International