rki.news
من حیث القوم ہمارا مزاج بہت ہی وکھری ٹایپ کا ہو چکا ہے. ہم میں عدم برداشت کے ساتھ ساتھ ہر معاملے کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے کی وبا عام ہوتی جا رہی ہے.
بالفرض اگر لیڈی ڈاکٹر، مریضہ اور بچے کی جان بچانے کے لیے بڑے آپریشن کا کہہ دے گی تو اس پر شک کرنے والوں کا ایک جتھا ہو گا کوی بڑی بی مریضہ کو اس ایمر جنسی میں بجاے کسی بڑے ہسپتال لیجانے کے ٹاون کی اس ڈرامہ باز دای کے پاس لے جاے گا جس کا دعویٰ ہو گا کہ وہ ہر قسم کے کیس میں بچے کی پیدائش نارمل طریقے سے کرنے کی ماہر ہے کیونکہ اس کے پاس جنات ہیں، یا کوی نامی گرامی پیر اس پر مہربان ہے اور پھر وہ بچے کی پیدائش نارمل کر بھی دے گی اب بھلے بچہ مرا ہوا نکال کے لواحقین کو تھما دے، یا مری ہوی خاتون کو، یا پھر Third degree perineal tear جیسی مشکل میں مریضہ کو ڈال مگر کیس تو نارمل ہو گیا ناں، ارے کیا آپ کو معلوم ہے کہ بڑا آپریشن اتنی جانوں کی قربانیوں کے بعد زچہ و بچہ کی جان بچانے کے لیے ایجاد ہوا تھااور cesarean سے زچہ و بچہ دونوں ہی زندگیاں بچانے میں کافی آسانی ہوی مگر آج بھی بھی جب کوی ڈاکٹر کسی دردیں لیتی ہوی مریضہ کے لواحقین سے بڑے آپریشن کا کہتی ہے تو سب اس لیڈی ڈاکٹر کو شک کی نگاہوں سے ہی دیکھتے ہیں ارے اتاریے شک کی اس میلی عینک کو اپنے ڈاکٹرز پہ اعتبار کرنا سیکھیے.
ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنوں میں نہیں بیگانوں کے بیچ رہ رہے ہیں، کیا کریں، اپنوں نے مار ہی ایسی دی ہے کہ انسانوں سے اعتبار کے ناتے نے دم ہی توڑ ڈالا ہے.
گوالے کی استادیاں دودھ سے کوسوں میل کی دوریوں پہ نہ لے کر جائیں تو کیا کریں؟ اب آنکھوں دیکھی مکھی تو کوی بھی نہیں نگل سکتا ناں، اور گوالوں نے تو جیسی قسم ہی کھا رکھی ہے کہ منہ مانگی قیمتیں بھی وصول کریں گے اور ملاوٹ کے نت نیے طریقوں سے گاہکوں کو پانی سے لیکر کیمیکل اجزا تک کچھ بھی ملانے سے گریز نہ کریں گے، اب ہر شخص خالص دودھ پینے کے لیے گھر میں بھینس باندھنے سے تو رہا ناں؟؟
تو ہم سب موجودہ معاشرے میں گوالے کو شدید شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور شک کا یہ ناگ اس وقت تک پھن پھیلاے کھڑا رہے گا جب تلک حکومتی سطح پر ان گوالوں کے لیے سختی سے قانون پہ عمل درآمد نہیں کروایا جاتا.
کھیتوں میں تپتی دوپہروں اور شدید ٹھنڈک میں مزدوروں سے بڑھ کر مزدوری کرنے والے کسانوں کو کبھی بھی ان کی محنت کا ثمر نہیں ملا، وہ فصلوں کی اچھی نشوونما کے لیے ہل ٹریکٹر سے پانی کی فراہمی اور پانی کی فراہمی سے کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک کسی بھی جگہ پہ روپے پیسے لگانے سے نہیں ہچکچاتے ہاں حکومت ہمیشہ کسانوں سے گندم، چاول اور دیگر اجناس انتہائی کم داموں میں خرید کر خود سے اجناس کی مالک بن بیٹھتی ہے، عوام اور کسانوں کےشکوے، شکایات دورکرنے کے لیے حکومت کو کوی بہتر لایحہ عمل تیار کرنا ہو گا تاکہ عوام اور کسانوں کو شک کی عینک ہٹا کر اپنی محنت کا پھل موصول ہو،
اس نے تو بڑی چاہ سے کھیت اپنا سجایا
بارش نہ ہوئی تو میرا دہقان کیوں ٹوٹا
سمرن نے ایف سی پی ایس سرجری میں ٹاپ کیا اور ٹاپ کی سیٹ پروفیسر رندھاوا کی بیٹی کو ٹرے میں رکھ کر پیش کر دی گءی اور سمرن کو ایک پس ماندہ تحصیل کے Basic Health unit میں تعینات کر دیا گیاتو پڑھنے والے، راتوں کی نیندیں حرام کرنے والے اور زندگی کے سکون کو تج دینے والے تو پورے نظام کو ہی شک کی سیاہ نظر سے دیکھیں گے ناں، تو خدارا، خدا کی زمین پہ رہتے ہوے نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو اس بات کا دھیان بھی رکھنا چاہیے کہ نظام کو چلانے والا اللہ بڑا ہی طاقتور ہے اور یوم حساب کو نیکی و بدی کا حسابی کھاتا بالکل میرٹ پہ ہو گا.
گناہ کیجئے
گناہ کیجئے
عالیجاہ کیجئے
اس جگہ کیجئے
جس جگہ پہ نہ ہو
نہ ہی میرا خدا
نہ ہی تیرا خدا
تو اللہ پاک کی زمین پہ ہر طرح کا گناہ کر کے خواہ مخواہ کے ٹھیکیدار بننے والے اچھی طرح سے جان لیں کہ اچھای کا بدلہ اچھای اور برای کا بدلہ برای ملے گا.
حیدر علی ایک پس ماندہ گاوں کے ایک ہاری کا بیٹا تھا اس کی محنت اسے امریکہ کی خلای کمپنی ناسا تک لے گءی اب وہ وہاں بہت بڑا انجینئر ہے اور کہکشاوں کو رستے دکھاتا ہے، اس کی محنت کو شک کی عینک اتار کر دیکھیے کیونکہ زندگی موت، غربت امارت اور اچھی یا بری تقدیر صرف اور صرف اللہ کی عطا ہیں.
آپا فہمیدہ ساٹھ سالہ ریٹائرڈ ہیڈ مسٹریس تھیں سارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرونی ممالک میں شفٹ ہو چکے تھے، آپا فہمیدہ اکیلے گھر میں اکیلی ہی رہتی تھیں ایک رات ان کی آنکھ کھٹکے سے کھل گءی وہ لاٹھی لے کر دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گییں جونہی دروازہ کھلا انھوں نے آو دیکھا نہ تاو لاٹھی کے وار کر کے آنے والے کا سر کھول دیا اور جب زخمی ہونے والے کی شکل دیکھی تو وہ ان کا اپنا بیٹا تھا جو ماں کو بنا بتاے سالگِرہ کا سر پرایز دینے آیا تھا اور اپنی ہی ماں کے شک کی بھینٹ چڑھ گیا تھا.
آءیے شک کی عینک ہٹا کر معاشرے کی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ ہمارا شمار بھی مہذب قوموں میں ہو پاے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply