Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“شہریوں پر حملہ آور بھکاری مافیا”

Articles , Snippets , / Friday, February 14th, 2025

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم نے اور بدھو میاں نے کچلاک جا کر کھانے کا پروگرام کیا بنایا ، خوشی سے بدھو میاں کی باچھیں ہی کھل گئیں ، اور لگے دیکھنے بار بار گھڑی ۔ کہنے لگے ذرا جلدی ہی روانہ ہوتے ہیں ، تاکہ وقت پر پہنچ جائیں ۔ کچلاک ، کوئٹہ کے مضافات میں واقع علاقہ ہے اور خاص طور پر روایتی ڈش ‘ روش ‘ کےلئے مشہور ہے ۔ عموماً کوئٹہ کے شہری پروگرام بنا کر یہاں روش کھانے ضرور جاتے ہیں . اور باہر سے آئے مہمانوں کی ضیافت کا انتظام بھی یہاں کیا جاتا ہے ۔ وقت مقرر پر ہم بھی گھر سے روانہ ہوئے ۔ بدھو میاں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔ اب بدھو میاں جیسے ہی روانہ ہوئے ، تو ہر لال سگنل پر گاڑی رکتے ہی بدھو میاں کا چہرہ بھی لال ہونا شروع ہو گیا ، اور اس کی وجہ سگنل کا لال ہونا بالکل نہیں ہے ، بلکہ سگنل پر موجود وہ پیشہ ور بھکاری ہیں جو گاڑی رکتے ہی یوں حملہ آور ہوتے ہیں جیسے پرانی جنگوں میں مخالف فوج لشکر کے میمنہ اور میسرہ پر حملہ آور ہوتی تھی ۔ ان کا اصل مقصد ہے کہ ان سے بچ کر کوئی نہ جانے پائے ، آپ کے شرافت سے ایک بار انکار کرنے کا ان پر چنداں اثر نہیں ہوتا ، بلکہ وہ گاڑی کی کھڑکی کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر آپ کو اتنا زچ کر دیں گے کہ یا تو آپ کو کچھ دیتے بنے گی یا پھر بدھو میاں کی طرح چہرہ لال کرتے بنے گی ۔ بدھو میاں کھانے کی خوشی بھول کر کہنے لگے آپ نے ان کی حرکتیں نوٹ کی ہیں ، یہ ایسے مانگتے ہیں جیسے کچھ دن پہلے آپ ان سے ادھار لے کر گئے تھے اور اب یہ واپس لینے نہیں بلکہ چھیننے آئے ہیں ۔ ہم نے کہا بدھو میاں بات تو درست ہے ۔ بھکاری مافیا پورے پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے ، خصوصی طور پر کوئٹہ کا بھی ۔ نہ آپ پیدل چل سکتے ہیں نہ سواری پر ۔ یہ بھکاری اتنے پیشہ ور ہیں کہ ان کو آپ سے پیسے نکلوانے کے سب گر آتے ہیں ۔ یہاں تک ہی محدود نہیں ، ان کے ہاتھ کی صفائی بھی بہت کمال کی ہے ، ذرا آپ کا دھیان ادھر ادھر ہوا اور آپ کا قیمتی سامان غائب ہو گیا ۔ یوں یہ نہ صرف شہر کی رونق پر بدنما داغ بن رہے ہیں ، بلکہ شہریوں کے لئے پریشانی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ آپ کسی دفتر جائیں یا شاپنگ مال ، ریسٹورانٹ جائیں یا چائے کے ہوٹل ، دوستوں کے ساتھ ہوں یا کاروبار کی جگہ ، دکان پر ہوں یا مساجد میں ، غرض آپ گھر میں ہوں یا گھر سے باہر آپ کہیں بھی ان کی عقابی نگاہوں سے بچ نہیں سکتے اور یوں آپ ہمیشہ ان کے نرغے میں ہی گھرے رہتے ہیں ۔ اب تو گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر آپ کو باہر تک بلا لیا جاتا ہے ، کہ آپ گھر میں چھپے بیٹھے ہیں ہماری بھیک دے دیں ۔ سو اب ہر گلی، سڑک، بازار اور چوراہے پر پیشہ ور بھکاری نظر آنے لگے ہیں ، جو زیادہ تر شہر سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے ہر طرح کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے نڈر ہو جاتے ہیں اور جرم کے بعد علاقہ اور شہر بدل لیتے ہیں ۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے معاشرتی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ پہلے تو لوگ ان کو معصوم بھکاری ہی تصور کرتے تھے ، مگر اب شہر میں جا بجا جس منظم انداز سے یہ دھندہ چل رہا ہے اس سے اس بات کی قلعی مکمل کھل چکی ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ایک منظم مافیا کے طور پر کام کر رہے ہیں ، یعنی پاکستان میں بھکاری مافیا ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کئی مقامات پر مخصوص گروہ سرگرم ہیں جو بچوں، عورتوں، معذور افراد اور حتیٰ کہ نشے کے عادی لوگوں کو زبردستی بھکاری بناتے ہیں ۔ یہ مافیا کم عمر بچوں کو اغوا کر کے یا ان کے والدین سے خرید کر بھیک منگوانے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔ کچھ افراد کو معذور بنا کر ، ان کے جسمانی اعضا کاٹ کر یا کیمیکل سے جلا کر انہیں سڑکوں پر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ ہمدردی حاصل کی جا سکے ۔
ملک کے بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں ان بھکاریوں کا قبضہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر بازاروں اور ٹریفک سگنلز پر خواتین اور بچے زبردستی گاڑیوں کے قریب آ کر بھیک مانگتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ بھکاری وارداتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ، جیسے چوری، جیب کاٹنا ، اور خواتین کو ہراساں کرنا ۔ بدھو میاں ہماری اتنی لمبی تقریر سن کر کہنے لگے تو جناب حکومت کیا کر رہی ہے ؟ قانون حرکت میں کیوں نہیں آ رہا ؟ سب یوں سو رہے ہیں جیسے یہاں قانون کی نہیں بھکاریوں کی حکمرانی ہو ۔ حکومتی ادارے اور پولیس بھکاری مافیا کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں ناکام نظر آ رہے ہیں ؟ ہم نے کہا ، کئی بار دکھاوے کے لئے قانون کی کارروائیاں کی ضرور جاتی ہیں ، مگر چند دنوں بعد حالات دوبارہ ویسے ہی ہو جاتے ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد 3 کروڑ سے ذائد ہے اور سالانہ 117 کھرب روپے یہ مافیا بھیک مانگ کر لوگوں کی جیب سے نکال لیتا ہے ، اس لئے اس بھکاری مافیا کے پیچھے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے لئے کچھ با اثر شخصیات اور کچھ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی سرپرستی بھی شامل ہو جاتی ہے ، جو اس مسئلے کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بدھو میاں کہنے لگے سب حکومت کی ہی نہیں کچھ عوام کی بھی ذمہ داری ہے یا نہیں ؟ ان بھکاری مافیاز کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لیے عوام کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی ۔ ہمیں مستحق افراد کی مدد ضرور کرنی چاہیے لیکن پیشہ ور بھکاریوں کو پیسے دینا اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دیتا ہے ۔ اس کے بجائے ہمیں اپنے اپنے علاقوں میں مستحق افراد کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرنی چاہیے ، اور یہی حکم الٰہی بھی ہے کہ مستحق تک اس کا حق پہنچاؤ ۔ یوں ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دے کر ہم اصل حقدار تک اس کا حق پہنچانے میں ناکام ہو رہے ہیں ۔ بدھو میاں کہنے لگے اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بھکاری مافیا کے خلاف سخت قوانین نافذ کرے ۔ ان کے نیٹ ورک کو ختم کرے ۔ پیشہ ور بھکاریوں کو بحالی مراکز میں منتقل کرے تاکہ وہ کسی ہنر کے ذریعے روزگار حاصل کر سکیں ۔ بچوں کے اغوا اور زبردستی بھیک منگوانے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ملوث مجرموں کو کڑی سزا دی جائے ۔ سوشل ویلفیئرز کے ادارے مضبوط کئے جائیں تاکہ حقیقی ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے ۔ بھکاری مافیا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ایک سنگین مسئلہ ہے ، جسے نظر انداز کرنا ملک کے معاشرتی ڈھانچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ عوام اور حکومت کو مل کر اس کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ پاکستان کو اس ناسور سے ہمیشہ کے لئے پاک کیا جا سکے ۔ اگر فوری اور سخت ایکشن نہ لیا گیا تو یہ مافیا مزید طاقتور ہوتا جائے گا ، اور ایک ایسا مسئلہ بن جائے گا جس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا ۔ لو جی ہم اور بدھو میاں ان بھکاریوں سے بچتے بچاتے کچلاک جا رہے ہیں روش کھانے لیکن آپ سب اس اہم مسئلے پر غور ضرور کیجیے گا کہیں بہت دیر نہ ہو جائے ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International