Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شہنشاہ اکبر.. رواداری اور عوامی مقبولیت کی تاریخ ساز علامت

Articles , Snippets , / Tuesday, May 20th, 2025

rki.news
برصغیر کی تاریخ میں مغلیہ سلطنت کا ایک روشن باب شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دورِ حکومت سے جُڑا ہوا ہے۔ اگرچہ اکبر ایک مسلمان حکمران تھا، لیکن اس کی حکمت عملی، مذہبی رواداری، عدل و انصاف، عوام دوستی، اور ثقافتی ہم آہنگی کی پالیسیوں نے اُسے صرف مسلم رعایا میں نہیں بلکہ ہندو آبادی میں بھی غیر معمولی مقبولیت عطا کی۔ ہندوستان کے کئی خطوں میں آج بھی اکبر کا تذکرہ عزت، محبت اور احترام سے کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ہندو مؤرخین اور سماجی دانشوروں کی تحریروں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ وہ کونسے تاریخی عوامل اور اقدامات تھے جنہوں نے اکبر کو ایک ہمہ گیر مقبول حکمران میں بدل دیا، اور کیوں وہ آج بھی بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی انصاف کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اکبر کی حکمرانی کا آغاز اگرچہ ایک روایتی مسلم سلطنت کی مانند ہوا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے ایسی سیاسی اور سماجی پالیسیوں کو اپنایا جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ سب سے اہم پہلو اس کی مذہبی رواداری کی پالیسی ہے جسے اس نے “صلح کل” کے نام سے تعبیر کیا۔ اس پالیسی کے تحت اس نے ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والوں کو برابری کی نظر سے دیکھا اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ یہ ایک غیر معمولی سوچ تھی، خاص طور پر اس دور میں جب مذہب کی بنیاد پر تعصب اور تفریق عام تھے۔ اکبر کے دربار میں ہندو پنڈت، جین سادھو، عیسائی پادری، اور مسلمان علما کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اس نے فتح پور سیکری میں “ایوانِ مذاہب” قائم کیا جہاں مختلف مذاہب کے نمائندے ایک ساتھ بیٹھ کر بین المذاہب مکالمہ کرتے تھے۔ اکبر خود بھی ان مباحثوں میں شرکت کرتا اور غیرجانبداری سے تمام نکات پر غور کرتا۔ اس رویے نے ہندو برادری کے دل میں اکبر کے لیے ایک خاص مقام پیدا کیا کیونکہ وہ خود کو کسی اجنبی یا محکوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ سلطنت کے ایک باعزت شہری کی طرح محسوس کرنے لگے۔
اکبر کی ایک اور بڑی اصلاح وہ اقدام تھا جب اس نے 1564ء میں “جزیہ” ٹیکس کو ختم کر دیا۔ یہ ٹیکس غیر مسلم رعایا سے وصول کیا جاتا تھا اور ان کے لیے بوجھ اور امتیاز کی علامت تھا۔ اکبر کا یہ قدم صرف ایک مالیاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس نے ایک واضح پیغام دیا کہ ریاست اپنے شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرے گی۔ ہندو عوام نے اسے ایک انصاف پسند اور مساوات کے قائل بادشاہ کے طور پر قبول کیا۔ اسی ضمن میں اکبر نے دیگر کئی اصلاحات بھی کیں جن سے ہندو معاشرت کو عملی فوائد پہنچے، مثلاً ستی جیسی ظالمانہ رسموں کے خلاف اقدامات، ہندو بیواؤں کے حقوق کی بحالی، اور مذہبی تہواروں میں سرکاری سطح پر شرکت۔
سیاسی حکمت عملی کے اعتبار سے بھی اکبر نے ہندو راجپوت سرداروں کو عزت و مقام دے کر ایک نئی طرزِ حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ اس نے کئی راجپوت ریاستوں سے سیاسی اتحاد قائم کیے اور ان کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات استوار کیے۔ راجپوت جنرل راجہ مان سنگھ اکبر کے نہ صرف قریبی دوست تھے بلکہ سلطنت کے اہم ترین فوجی کمانڈر بھی تھے۔ اکبر نے راجپوت شہزادیوں سے شادیاں کیں، جنہیں عزت کے ساتھ حرم میں رکھا گیا اور ان کے بیٹوں کو ولی عہد جیسے اہم عہدے دیے گئے۔ یہ عمل صرف ایک سیاسی حکمتِ عملی نہ تھا بلکہ یہ بین المذاہب ہم آہنگی اور اتحاد کا عملی مظہر تھا۔
تعلیم و ثقافت کے میدان میں بھی اکبر کا کردار غیر معمولی تھا۔ اس نے سنسکرت، ہندی اور دیگر زبانوں کے علما کی سرپرستی کی۔ رامائن، مہابھارت، اترا رام چرتر، اور دیگر ہندو مذہبی و ادبی کتب کو فارسی میں ترجمہ کروایا تاکہ ان تک مسلم درباری بھی رسائی حاصل کر سکیں۔ اکبر خود بھی علمی مطالعہ کا شوق رکھتا تھا اور اس کے دربار میں ایک عظیم الشان کتب خانہ موجود تھا۔ فنِ تعمیر میں بھی اکبر نے ہندو اور اسلامی طرزِ تعمیر کو یکجا کیا۔ فتح پور سیکری، آگرہ قلعہ، اور الٰہ آباد قلعہ جیسے شاہکار اس کی جمالیاتی حس اور ثقافتی امتزاج کا ثبوت ہیں۔
اکبر کا عدالتی نظام بھی اس کی رواداری اور انصاف پسندی کا مظہر تھا۔ وہ اپنے فیصلوں میں مذہب، ذات یا برادری کو حائل نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کی عدالت میں ہر فرد کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا تھا۔ اس نے مفت عدالتی خدمات، عوامی شکایات کی سماعت، اور خود عام عوام سے براہِ راست رابطہ رکھنے جیسے اقدامات کیے۔ وہ ہفتے کے مخصوص دن عوامی عرضیوں کے لیے مختص کرتا، جہاں لوگ بلا واسطہ شہنشاہ کے سامنے پیش ہو کر اپنی شکایات بیان کرتے۔ ایسے مناظر نے ہندو رعایا میں اعتماد اور احساسِ تحفظ کو فروغ دیا۔
اکبر کے یہ تمام اقدامات اس وقت کے برصغیر میں ایک انقلابی تبدیلی کی صورت اختیار کر گئے۔ جہاں ایک طرف کئی مسلم علما اور شدت پسند اس کے نظریات سے ناراض تھے، وہیں دوسری طرف عوام کی اکثریت، خاص طور پر ہندو برادری، نے اکبر کو ایک ایسا بادشاہ تسلیم کیا جو اُن کے جذبات، روایات، اور حقوق کا احترام کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ہندو تاریخ میں اکبر کا مقام صرف ایک حکمران کا نہیں بلکہ ایک “راج دھرم” کو سمجھنے والے بادشاہ کا ہے۔ اس کی شخصیت کو سنسکرتی اصطلاح میں “دھرم راجہ” کے قریب سمجھا جاتا ہے، جو راج پا کر بھی عدل و امن کی راہ سے نہیں ہٹتا۔
تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ اکبر کے بعد آنے والے مغل بادشاہوں نے اس کی پالیسیوں سے انحراف کیا، جس کے نتیجے میں سلطنت کا شیرازہ رفتہ رفتہ بکھر گیا۔ لیکن اکبر کا نام آج بھی تاریخ کے ان سنہری کرداروں میں شامل ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سماجی عدل، اور عوامی فلاح کے ترجمان تھے۔ اس کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حکومت صرف تلوار یا طاقت سے قائم نہیں رہتی، بلکہ دلوں کو جیتنے سے ایک پائیدار اور ہم آہنگ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اکبر کا ماڈل آج بھی ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اُن معاشروں کے لیے جو مذہبی اور نسلی کشمکش کا شکار ہوں۔ وہ ایک سچا ہندوستانی شہنشاہ تھا جس نے مذہب کو تلوار نہیں، پلِ محبت بنانے کا ذریعہ بنایا۔

حوالہ جات:
1. ابو الفضل، اکبرنامہ، حصہ اول و دوم، ترجمہ مولوی فضل الحق، مطبوعہ دہلی، 1890۔
2. ستیش چندر، مغلیہ سلطنت کی تاریخ، مطبوعہ نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا، 2005۔
3. ڈاکٹر آر۔ سی۔ مجمدار، ایڈوانسڈ ہسٹری آف انڈیا، مکمل ایڈیشن، مطبوعہ مکمل اینڈ کمپنی، کلکتہ، 1978۔
4. ڈاکٹر بشیر احمد دار، فکرِ اکبر اور دینِ الٰہی، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، 1982۔
5. وینکٹ رمن، اکبر: اے ہسٹوریکل اسٹڈی، مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1992۔
6. شری رام شرما، اکبر دی گریٹ، مطبوعہ انڈین ہسٹری سوسائٹی، 1964۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International