rki.news
مرادعلی شاہدؔدوحہ قطر
بنکم چیٹر جی نے جب بندے ماترم لکھا تو اس نے دھرتی اور ماں دونوں کو سلام پیش کیا،تاہم مسلمانانِ برصغیر نے اپنے مخصوص انداز میں نعرہ تحسین بلندکیا کہ۔۔۔۔او تیری ماں کی۔۔۔مسلمانوں کے اس اندازِ تخاطب سے ہندوؤں کو اس بات کی وضاحت پیش کرنا پڑی کہ ماں سے مراد ماتا دیوی نہیں دھرتی ماں ہی لیا جائے۔یہ وضاحت بھی ایسے ہی تھی کہ جیسے”مالاباری“کے بارے میں موسم ِ گرما میں ہر گھنٹہ بعد درجہ حرارت چڑھنے سے ان کی ”دھوتی“کوہ پیماؤں کی طرح ایک ایک فٹ اونچائی کی طرف بلند ہوتی جاتی ہے،عین اس وقت کہ جب سکھوں کے بارہ بجتے ہیں حکومت کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ حضرات اس وقت سمے اور سکھوں کے بارہ بج چکے ہیں لہذا ”مالاباریوں“کو دیکھنا ممنوع ہے۔درجہ حرارت اور دھوتی کے گرنے سے آپ مالاباری کو پھر سے دیکھ سکتے ہیں۔پاکستان جتنی بار آئی ایم کی نظروں سے گر چکا ہے”گرنا“اب ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔
خوش قسمت ہیں ہم پاکستانی کہ ہمارے ہاں ماں کی عظمت اور درجہ حرارت(غصہ)کا سورج ہمیشہ ہی سوا نیزے پہ رہتا ہے،بچے ماں کے درجہ حرارت کی تپش کو نظر انداز کریں تو ماں کی ”چپل“سب منوا لیتی ہے۔ماں کے قدموں تلے جنت کا حوالہ سب دیتے ہیں ”چپل“کا حوالہ کبھی کوئی نہیں دیتا۔
اعتزاز احسن نے دھرتی ماں سے پیار کا اظہار درج ذیل پیرائے میں کیا ہے کہ
دھرتی ہوگی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی
فوج لگے گی سب کو اچھی جب سرحد کے پاس رہے گی
اس ”نظم“کے بعد سے ہی اعتزاز احسن”منتشر“ہیں۔اور اب اعتزاز احسن کی دھرتی ماں اور چشمِ فلک دیکھ رہی ہے کہ اس کے رکھوالے ایک ایک کو ”اٹھا اٹھا“ کر پیار کر رہی ہے۔کچھ تو پیار کی حدت وتپش کو برداشت نہ کرنے کی پاداش میں دھرتی ماں کی گود میں ہمیشہ کے لئے استراحت فرمانے چلے گئے ہیں اور اب اپنے اللہ سے شکوہ کناں ہوں گے کہ اے خدا دھرتی تو ٹھیک ہے ماں کے پیار میں ”کھوٹ“آگیا ہے۔
ہماری دھرتی ماں جس کے معنی ہیں پاک لوگوں کے رہنے کہ جگہ،ہم دھرتی ماں کو پوتر رکھنے کے لئے ہر ادارے میں انتہائی”صفائی“کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ صفائی ”صاف“ اسلام ہے۔میں جب محکمہ جنگلات میں تھا تو دورانِ دورہ ہمارے آفیسر نے حکم نامہ جاری کیا کہ اس جگہ کی راتو رات صفائی ہونا چاہئے میں کل پھر آؤں گا۔
واقعی اگلے روز جب آفیسر آیا تو جنگل مکمل”صاف“ تھا یعنی ایک بھی درخت موجود نہ تھا۔انکوائری چلی تو صاحب کا اکاٗونٹ انتہائی صفائی سے بھر دیا گیا،اگلے ہی دورہ پر میرے باس کو ”خوب صفائی“کرنے پر مبارکباد پیش کی گئی،سندِ تحسین الگ سے۔میری دھرتی ماں قدرتی دولت سے مالا مال ہے،جس سرکاری ملازم کی بھی ڈیوٹی ایسے علاقہ میں لگتی ہے دنوں میں ہی ”مالامال“ہو جاتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا کہ بلوچستان کی دھرتی ”سونے“سے مالا مال ہے،یہ الگ بات کہ دورانِ تحقیق افسران جاگ اور عوام سو رہے تھے۔جب سے ملک آزاد ہوا ہم غلام ہو گئے ہیں۔ہمارے ملک میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں پھر بھی عوام کا نکالتے ہیں۔گیس کے وافر ذخیرے ہیں پھر بھی ہر تیسرا بندہ”گیس“کی دوائی کھا رہا ہے۔گیس ہے کہ نہ زمین سے نکل رہی ہے اور نہ ہی پیٹ سے۔صوبہ سندھ کا ذریعہ آمدن قدرتی آفات ہیں اسی لئے مستقل مزاجی ودلجوئی سے سیلاب آنے کے لئے ہمہ وقت دعا گو رہتے ہیں۔سندھ میں سیلابی پانی نہ آئے تو سیاستدانوں کی آنکھ میں پانی آجاتا ہے یہ دعا کرتے کرتے کہ یا خدا ہماری آنکھ کا پانی خشک ہونے سے قبل سیلاب کی روانی میں اضافہ فرما کہ زیادہ پانی آنے سے زیادہ پیسہ آتا ہے۔
جب ٹرمپ کہتا ہے کہ پاکستان میرا ملک ہے تو ایک طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔میری نظر میں اب ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہا اس بے چارے نے،ذرا سوچئے کہ آئین کے رو سے ملک کے مالک کون ہیں اور چلا کون رہے ہیں؟
موٹر وے آئی ایم ایف کے سپرد
معدنیات امریکہ،چین اور ٹرمپ
ائیر پورٹ قطر
سکول و کالج،ہسپتال آؤٹ سورس
بڑے بڑے ادارے ”ان“کے حوالے اور عوام اللہ دے حوالے۔
پھر بھی اعشاریے اشارے کر رہے ہیں کہ ملک اونچی اڑان بھرنے کو تیار ہے،بس جانگیہ پہننے والا رہ گیا ہے۔پہلی بار میں نے یہ فقرہ بھٹو کے بارے میں پڑھا تھا کہ عوام قربانی دے اور ضیا کے منہ سے سنا تھا کہ اب چینی چوروں کو چین پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ماشا اللہ ہم کتنے مسقل مزاج ہیں کہ اب بھی وہی نعرے ہم عوام سیاستدانوں سے سن رہے ہیں بس شکلیں بدل گئی ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ”نسلیں“بدل گئی ہیں۔سیاستدانوں میں نسل در نسل یہ نعرہ چلتے چلتے اب شریف خاندان تک پہنچ گیا ہے،اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ”شریف“کیسے”چوروں“کو سزا دے سکتے ہیں۔حالیہ حکومت نے عزم کر رکھا ہے کہ دھرتی ماں کو صاف ستھرا کر کے ہی دم لیں گے،اسی لئے یہ حکومت ہر کام اتنی”صفائی“سے کر رہی ہے کہ آنے والی حکومت بھی سمجھے کہ یہ سب ”ہاتھ کی صفائی“کا کام ہے۔
کل اپنے اک ہم عصر سے پوچھا کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک کی خاطر ہمیشہ قربانی قوم نے ہی دی ہے تو بے ساختہ دیدہ ترگو یا ہوئے ”اتفاق“سے نا اتفاقی کر کے،کیا میں نے پاکستان میں نہیں رہنا؟۔ آخر میں کہنے لگے پاکستانی عوام اپنی دھرتی ماں کے لئے اتنی قربانیاں پیش کر چکی ہیں کہ اتنی تو شائد آسمان سے بھی نہیں اتریں۔سنا ہے کہ اب ملک میں ستائیسویں تر۔۔میم،آ رہی ہے جس سے عوام تتر بتر اور حکومت وادارے تر بتر ہو جائیں گے۔لیکن ہم عوام کو کیا لینا اور حکومت کا کیا دینا۔ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اوتیری۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply