Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“صرف سُم ئنا اجازت اے نمے”(بروہی) (مجھے صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے)

Articles , Snippets , / Monday, July 21st, 2025

rki.news

محبت کی مقتل گاہ پر لکھی گئی ایک داستان
ساکن ریت، بے چین ہوا، خاموش آسماں پر بادلوں کی بجائے ایک عجیب سا خالی پن چھایا تھا جیسے خود قدرت بھی اس دن کچھ سنگین دیکھنے کی جستجو میں محو تماشا ہو۔
بلوچستان کے چٹیل میدان میں بسے اس پسماندہ گاؤں میں، وہ دن ایک عام دن نہیں تھاوہ دن دو محبت کرنے والوں کے مقدر کے فیصلوں کا دن تھا، وہ دن انصاف کے لبادے میں لپٹے ہوئے سفاک اور الم ناک فیصلے کا دن تھا۔

“محبت”جیسے نام نہاد گناہ کے مرتکب “زرک” اور “شیتل” سادہ خواب بُننے والے دو دل اور آنکھیں، بے گناہ وجود لئے اپنے انجام سے واقف اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے

شیتل وہ لڑکی تھی جو خامشی کی مٹی سے پیدا ہوئی، لیکن بغاوت کا طوفان لئے زرک کے ہمراہ چل پڑی، دونوں نے سماج کی بنائی ہوئی فرسودہ روایات سے بغاوت کر ڈالی ۔انھوں ایسے راستے کا انتخاب کیا، جس پر کانٹے بھی تھے،درد بھی تھا اور موت کا سیاہ سایا بھی جو پیہم تا قیامت ان کے ساتھ رہتا لیکن ان کے دلوں میں گلوں کا چمن کھلا تھا

جب انھوں نے سماج اور معاشرے کے بنائے ہوئے تنگ و تاریک قانون سے انحراف کرکے اپنا راستہ خود چنا اور وہ راستہ حلال اور برحق تھا یعنی “نکاح”، تب محبت اُن کی رگوں میں خون کی گردش کی طرح دوڑ رہی تھی، خدا جانے کیا کیا خیالات تھے، خوب صورت زندگی گزارنے کا گراف بنایا ہوگا اورانھی محبت کے پیچھے جہالت میں ڈوبا ہوا پورا معاشرہ جن کے دل میں نام نہاد غیرت،انا، حسد، غصہ اور بغض کی اگ تھی، منافقت کی انتہا، اک روز شیتل اور زرک کو فیصلے کے نام پر منافقوں کی طرف سے دعوتِ طعام پر واپس بلایا گیا، وہ معصوم چہرے جن کے دل میں محبت تھی اور ان کے دل آئینہ کی طرح شفاف تھے ، وہ بھروسا کرکے واپس لوٹ ائے یہ طے پایا کہ قبائلی جرگہ فیصلہ کرے گا۔
معاملہ قبائلی اصولوں کے مطابق حل ہوگالیکن یہ صرف ایک پردہ تھا، ایک جال تھا جن کا اندازہ نا شیتل کو تھا اور نہ زرک کواصل میں اُنھیں محض دشمنوں کے سامنے دھکیلا جا رہا تھا ہوا یوں انھیں سزا سنائی گئی— سزا بھی موت کی، سنانے والے قاضی نہ فرشتے تھے نا ہی متقی، سنت نبوی کی آڑ میں انھوں نے کوفہ والوں کی سفاکیت اپنا کر کربلا کی یاد تاز کرڈالی تھی۔

صبح سویرے سنسان جنگل میں دونوں معصوموں کو ایسے لایا گیا جیسے سلطنتِ مغلیہ کے کسی باغی جنرل کو لایا جارہا ہو زرک کو الگ اک گاڑی میں بٹھایا گیا اس کے ساتھ اس کے خاندان کی سبھی افراد تھے اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، جیسے وہ کوئی خطرناک مجرم ہو، جیسے محبت کرنا جرم ہو، کڑی دھوپ میں اُسے ننگے پاؤں لایا گیا ماتھے پر پسینہ نہیں، لیکن آنکھوں میں بےبسی کی ایک ٹوٹتی ہوئی جھلک تھی۔

پھر شیتل کو لایا گیا،احساسات سے خالی چہرہ لئے، کلام پاک سینے سے لگائے بے خوفی سے چلتی ہوئی آگے بڑھی اور خود کو گولی کھانے کے لیے پیش کرتے ہوئے فقط ایک جملہ کہا ،”صرف سُم ٔنا اجازت سے نمے” ۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سا رعب، ایک سرکشی، ایک للکار تھی، ہزاروں مرد، بندوقیں اٹھائے کھڑے تھے پھر بھی وہ نہیں سہمی جھجکی ۔فضا میں ایسا سکوت چھایا تھا جیسے موت پر سو سایہ فگن ہو۔
زرک نے اس کی طرف دیکھا نہ کچھ کہا، نہ کچھ پوچھا بس ایک لمحہ، خاموشی میں، دونوں کی روحیں ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئیں۔

پھر—
بندوقیں چلیں انکی گرج دردناک تھی
پہلے شیتل گری ، گولیاں برسیں
زرک نے آنکھیں بند کیں، بعد ازاں زرک ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ اس کے پہلو میں گر گیا اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی چھلنی ہوگیا مٹی نے انہیں اپنے اندر سمیٹ لیا۔لیکن وہ جملہ جو شیتل کی زباں سے بلند ہوا “صرف سُم ئنا اجازت اے نمے”
ریت پر، ہوا میں، ہر دل پر، ہمیشہ کے لیے کندہ ہو گیایہ کہانی ختم نہیں ہوئی یہ آغاز ہے ایک نئے باب کا،جہاں محبت جرم نہیں ہوگی،جہاں عورت کی آواز صرف سننے کے لیے نہیں، ماننے کے لیے ہوگی،جہاں زرک اور شیتل جیسے لوگ مر کر امر ہو جائیں گےمحبت مر گئی، لیکن جھکی نہیں مہر ختم ہوا، لیکن بکا نہیں۔ شیتل اور زرک منوں مٹی تلے سوئے خود کو امر کر گئے۔
☆شاہ فیضی☆


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International