rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
تو جناب نئے سال کی آمد کا بھی ایسا ہی شور اور شہرہ ہے۔یوں لگتا ہے کہ سب تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ سال نو آغاز کے قریب ہونے پر ہر سال ایسا ہی سمجھا جاتا ہے، اور ایسا ہی ماحول ہر سو نظر آنے لگتا ہے۔ ایسا گمان ہونے لگتا ہے جیسے سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا یکسر بدل سی جائے گی، اور دنیا میں کوئی بہت بڑا بدلاؤ آ جائے گا۔ ہر ذہن ایسے خواب بننے لگتا ہے جیسے سال نو کے پہلے دن سورج مشرق کی سمت سے اپنا رخ بدل کر مغرب سے طلوع ہونے کا اعلان کر دے گا ۔ گھڑی کی سوئیاں مخالف سمت میں چلنے لگیں گی ۔ ہواؤں کا رخ یکدم بدل جائے گا۔ گلی کوچوں میں آغاز سال نو ہوتے ہی ہر طرف دودھ اور شہد نہریں بہنے لگیں گی۔ ظالم ظلم سے تائب ہو جائیں گے۔ ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ غربت راتوں رات بھیس بدل کر دیس نکالا لے لے گی، اور امارت شہر میں راج کرنے لگے گی۔ راوی ہر سو چین ہی چین لکھنے لگے گا ۔ انسانوں کی رشتوں میں موجود آپس کی رنجشیں کروٹ بدلتے ہی محبتوں میں بدل جائیں گی۔ نفرت کا پرچم سرنگوں ہو جائے گا۔ انسانیت کا پرچم چہار عالم پر لہرانے لگے گا، انسانیت کا بول بالا ہونے لگے گا۔ تمام ممالک اقوام متحدہ میں جمع ہو کر اس عہد سے آغاز سال نو کریں گے کہ دنیا میں موجود تمام اسلحہ تلف کر کے ہم آئندہ صرف امن و آشتی سے زندگیاں خود بھی گزاریں گے، اور دوسروں کو بھی گزارنے دیں گے۔ ایک دوسرے کیساتھ مل کر ترقی کی راہ پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سنگ چلنے کی کوشش کریں گے۔ زمین پر بسنے والے سب انسانوں کے لئے زندگیاں آسان ہو جائیں گی۔ رنگ، نسل اور قوم سے بالاتر ہو کر صرف انسان کو انسان سمجھتے ہوئے سب کو ایک جیسی ترقی سے سہولیات زندگی کیساتھ زندگیاں گزارنے کا مواقع فراہم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ تمام انسانوں میں دولت اور وسائل کی یکسا تقسیم شروع ہو جائے گی۔ جرائم کے نام و نشان تک کا خاتمہ ہو چکا ہو گا ۔ تمام انسان صرف اور صرف انسانیت کے لئے کام شروع کر چکے ہوں گے، لیکن یہ سب دیوانے کے خواب کی طرح صرف گمان ہی رہ جائے گا، کیونکہ ایسا کچھ بھی ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ تمام انسان 2025 کی آخری رات 31 دسمبر کو سو کر جب 2026 کی پہلی صبح 1 جنوری کو جاگیں گے، تو سب کو یہی احساس ہو گا کہ یہ صرف ایک دن کے بدلنے کی تاریخ ہے۔ صرف کلینڈر پر دسمبر 2025 کی جگہ جنوری 2026 جگمگا رہا ہو گا۔ تمام انسانوں کے حالات ویسے ہی رہیں گے۔ دنیا میں بد امنی کا ویسے ہی دور دورہ رہے گا۔ جرائم کی تعداد میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہوتا رہے گا۔ انسانیت ویسے ہی رنگ، نسل اور قوم کے خانوں میں تقسیم رہے گی۔ ممالک ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے میں بسنے والے لوگوں پر عرصہ زندگی تنگ کرنے کے درپے رہیں گے۔ رہنماء نفرت کے بیج بوتے رہیں گے۔ اگلی صبح جب باہر نکل کر شہر دیکھیں گے تو دودھ اور شہد کی نہروں کی جگہ، وہی پرانی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نظر آئیں گی، کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہر طرف منہ چڑا رہا ہو گا۔ غریب اسی طرح غریب ہی جاگے گا۔ ظلم کا دور دورہ ہی رہے گا۔ ہواؤں کا رخ اسی سمت ہی رہے گا، بلکہ ہواؤں میں انسان ترقی کے نام پر مزید زہر بھرتا چلا جائے گا۔ آپس کی نفرت اور رنجشیں نئے سال کی مبارکباد دینے تک سے روکے رکھیں گی۔ روای ہر طرف پورے سال بد امنی ہی بدامنی لکھتا رہے گا۔
پھر آخر ہم ہر سال آغاز نو پر اتنے خوش کیوں ہوتے ہیں؟ جب ہم خود کو بدلنا ہی نہیں چاہتے، تو کیا تاریخ بدلنے سے کچھ بھی بدل سکتا ہے؟ ہم سال نو کو بنا عہد کے منانے میں خوش ہوتے ہیں۔ یونہی بنا عہد کے سال پر سال گزرتے چلے جا رہے ہیں۔ انسان اپنا وقت اس دنیا میں گزار کر آخر اس مقام پر چلا جاتا ہے، جہاں تاریخ یا سال بدلنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیچھے رہ جانے والے انسان اسی غفلت میں اپنی زندگی اسی طرح گردش ماہ و سال کے چکر میں چکراتے چکراتے گزارتے چلے جاتے ہیں، اور دنیا سے رخصت لینے کی اپنی باری کے منتظر رہتے ہیں۔
آئیے سال نو ایک عہد کے ساتھ شروع کریں۔ ایک عہد کہ ہم اپنے میں ایک اچھا بدلاؤ لانے کی کوششوں سے سال نو کا آغاز کریں گے۔ ایسا نظام بنانے کی کوشش سے آغاز کریں گے جہاں انسان پر عرصہ حیات تنگ نہ ہو ، جہاں سب کو جینے کی مکمل آزادی ہو، اور جہاں سب کے لئے خوشیاں یکساں ہوں۔ ایک عہد کہ ظلم کا خاتمہ کرنے کی کوشش ہو، انسان کو خوشحال بنانے کی جدوجہد ہو۔ دعا کیجیے اور دعا کے ساتھ دنیا کو بدلنے کی کوشش کا آغاز بھی ضرور کیجئے۔ شائد پھر سال نو صرف کلینڈر پر تاریخ بدلنے کا نام ہی نہ رہ جائے، بلکہ انسانیت کی تاریخ بدلنے کا نام بن جائے۔
سال نو کی زمین میں مل کر
آو اپنی دعائیں بوتے ہیں
سب کی پوری ہوں سب تمنائیں
پیار کا کھیت مل کے جوتے ہیں
Leave a Reply