تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
ریاستیں کمزور ہوں یا طاقتور،ہمیشہ خطرات کے زد میں رہتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کمزور ریاستوں کو طاقتور ریاستوں کی نسبت زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔کمزور ریاستوں کے مسائل زیادہ ہوں یا کم،ہمیشہ انتشار کا شکار رہتے ہیں۔جن ریاستوں کی عوام میں شعور زیادہ ہوتا ہے،وہ ریاستیں عوامی طاقت سےاپنے بقا کو آسانی سےقائم رکھتی ہیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑی ریاستوں کی عوام میں انتشار پیدا ہو جائےیا فکری شعور بےسمت چل پڑے،تو ان کی سلامتی کے لیے بھی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔کمزور ریاستوں کا ایک یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ طاقتور اور ترقی یافتہ ریاستوں کی پالیسیوں کواپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ پالیسیاں فائدہ مند ہیں یا نقصان دہ،بے سوچے سمجھے نافذ کر دی جاتی ہیں۔اکثر بیرونی پالیسیاں ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور یوں کمزور ریاستیں اپنے وجود کو خود ہی خطرےکی طرف دھکیل دیتی ہیں۔درآمد کی گئی پالیسیاں بعض اوقات فائدہ مند بھی ہوتی ہیں،لیکن وہ پالیسیاں طاقتور اور ترقی یافتہ ریاستوں کے لیےہی بنائی گئی ہوتی ہیں۔ہر ریاست کے محل وقوع اور دوسری وجوہات کی وجہ سے اپنے مسائل ہوتے ہیں اوران کو حل کرنے کے لیےخود ہی لائحہ عمل ترتیب دینا پڑتا ہے۔کئی ایسے قوانین ریاستوں میں لاگو کر دیے جاتے ہیں،جو ترقی یافتہ ریاستوں کے لیے ہوتے ہیں کمزور ریاستوں کے لیےخطرناک ثابت ہوتے ہیں۔کچھ قوانین ایسے ہوتے ہیں جو ہر جگہ اور ہر ریاست کے لیےبہترین ثابت ہوتے ہیں اور ریاستوں کو دوام بخشتے ہیں۔مثال کے طور پر اسلامی قوانین فطری طور پر ہر ریاست کو آگےبڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔اسلام نےایک ایسا ضابطہ حیات دیاہوا ہے جس پر چل کرترقی کی منازل آسانی سے طے کر لی جاتی ہیں۔انسانی بنیادی حقوق کو اسلام اولین ترجیح دیتا ہےاورانسانی حقوق دینے کی وجہ سےایک بہترین ریاست کی تشکیل ہوجاتی ہے۔اگر کوئی ایسے قوانین نافذ کر دیے جائیں جو اخلاقی لحاظ سے بھی بہتر ہوں تو پھر بھی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔بعض ممالک ایسے قوانین نافذ کر دیتے ہیں جو غیر اخلاقی ہوتے ہیں،لیکن دعوی کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیےموافق ہیں۔مثلا ہم جنس پرستوں کی شادی کئی ممالک میں قانونی لحاظ سے جائز ہے،لیکن اخلاقی،نفسیاتی،ثقافتی اور کئی وجوہات کی وجہ سےقابل تنقید ہے۔ایسی پالیسیاں اپنانے سے پرہیز کرنا چاہیے جو ریاست کےلیے نقصان دہ ہوں بلکہ ان پالیسیوں کو اپنا کر کمزور ریاستیں اپنے وجود کی سلامتی کو برقرار رکھ سکتی ہیں،جن کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے۔معیشت،دفاع،تعلیمی اور صحت کا نظام،عدل و انصاف وغیرہ کئی قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیےکافی سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔اگر سنجیدگی کو نظر انداز کر دیا جائےتو مسائل گھمبیر رخ اختیار کر لیتے ہیں۔
طاقتور ریاستیں اس وقت کمزور ہو جاتی ہیں جب اداروں اور حکومت کے درمیان عوامی فاصلے بڑھ جائیں۔بڑھتے فاصلےایسےمسائل پیدا کر دیتے ہیں جن سے ریاستیں تباہی کے خطرے سے دوچار ہو جاتی ہیں بلکہ تباہ بھی ہو جاتی ہیں۔طاقتور ریاستیں اپنے پھیلاؤ میں اضافہ کرنے کے لیےدوسری ریاستوں پر حملے بھی کر دیتی ہیں۔ حرص اور لالچ وسیع انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سبب بنتی ہیں۔طاقتور ریاستوں کی معیشت مضبوط ہوتی ہےاور مزید دولت کی لالچ جنگیں شروع کروا دیتی ہے۔کسی نظریے کے بغیر لڑی جانے والی جنگ بہت ہی خطرناک ہوتی ہے،کیونکہ جنگیں ویسے بھی بربادی لاتی ہیں لیکن بغیر نظریے کے لڑی جانے والی جنگ خاصی خوفناک ہوتی ہے۔نظریاتی جنگ کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اوراصول وضوابط کے مطابق لڑی جانی والی جنگیں انسان کی بہتری کے لیے ہوتی ہیں۔پھر مجھے اسلام کی مثال دینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے لشکر بھیجتے تو ان کو تاکید کرتے تھے کہ”جہاد کرو اور فساد نہ کرو اور مثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں سے ملو تو(جنگ سے قبل)ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت ہو اور ان تینوں میں سے وہ جو بھی قبول کر لیں تو ان سے جنگ کرنے سے رک جاؤ،وہ یہ ہیں۔1_ان کو دعوت اسلام دو اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کا اسلام لانا قبول کر لو اور ان پر حملہ کرنے سے رک جاؤ۔2_پھر ان کو ان کے گھروں سے مہاجرین کے گھروں کی طرف منتقل ہونے کا کہواور ان کو بتا دو اگرانہوں نے ایسا کیا تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین کی ہیں۔3_پس اگر اسلام میں آنے سے انکار کر دیں تو ان کو کہو کہ جزیہ دینا منظور کر لیں،اگر وہ جزیہ دینا منظور کر لیں تو ان سے جزیہ لینا قبول کر لو اور ان پر حملہ آور ہونے سے رکے رہواور اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں تو ان کے خلاف اللہ کی مدد طلب کرو اور ان سے جنگ کرو”(سنن ابن ماجہ)اصولوں کے تحت لڑے والی جنگ امن کی طرف رہنمائی کرتی ہےاور مکمل برباد کرنے سے بچاتی ہے۔یہ بہت ہی بہترین بات ہوتی ہے کہ طاقتور ریاست کمزور ریاست کو پنپنے کا موقع دے۔اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعوی کرے اور بغیر اصولوں کےجنگ لڑے(جو اصول اور قوانین قرآن و حدیث میں بیان کر دیے گئے ہیں)تو وہ اسلامی جنگ نہیں کہلائے گی بلکہ لالچ یا کسی اور وجہ سےلڑی جا رہی ہوگی۔طاقتور ریاستیں دوسروں کو عبرت دلانے کے لیے عورتوں کی عزتیں بری طرح پامال کرتی ہیں۔مفتوح اقوام کے گھر بار،کاروبار،تعلیمی درس گاہیں اورعبادت گاہیں تک تباہ کر دیتی ہیں۔غیر اصولی جنگ مفتوح قوم کے لیےشدید ذلت کا سبب بنتی ہےاور طاقتور ریاستوں کی افواج اپنی بےمہار طاقت کے نشے میں ہر ظلم اور جبرروا رکھ لیتی ہیں۔
کمزور ریاستیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے بھی کمزوری کا شکار ہوتی ہیں۔جدید اسلحہ جو ریاست کی مضبوطی کےلیے ضروری ہوتا ہے،اسلحہ کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں لی جاتی جس سےاس کی سلامتی خطرےسےدوچار ہو جاتی ہے۔عدل و انصاف بھی بہت ضروری ہوتا ہے،کیونکہ جن ریاستوں میں عدل وانصاف کا فقدان ہوتا ہے وہاں سازشیں اور بیرونی مداخلت بھی بڑھ جاتی ہے۔عوام کو تعلیم اور فکری شعور کی طرف بھی راغب کرنا لازمی ہے تاکہ وہ ریاست کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے حقوق او فرائض سےآگاہی حاصل کر سکیں۔معیشت کو مضبوط کرنا بھی لازمی ہوتا ہے کیونکہ کمزور معیشت ہی کسی بھی ریاست کی تباہی کے لیے کافی ہوتی ہے۔سیاسی استحکام بھی لازمی ہونا چاہیے،کیونکہ سیاسی استحکام کی عدم موجودگی ریاست کو کمزور کرتی رہتی ہے۔ریاست اپنی دولت خود پیدا کرنے کی کوشش کرے،مثال کے طور پر زراعت اور دیگر شعبوں کی طرف ضروری توجہ سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔قرض اور سود بھی ریاست کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں لہذا ان سے بھی اجتناب برتنا ضروری ہے۔میرٹ کو پامال کرنا ریاست میں بے چینی پیدا کرتا ہےاور ریاست کی کمزوری بڑھا دیتا ہے۔دیگر کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن سے ریاستیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔جو ریاستیں سیکولر ہیں،اگر وہ انصاف پر کاربند ہیں تو وہ بھی کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیےہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔بہرحال یہ بھی نظام دنیا کی تباہی تک چلتا رہے گا کہ کہیں نہ کہیں جنگ جاری رہے گی۔جنگ اگر ظلم کےخاتمے کی لڑی جا رہی ہے تو وہ بہترین جنگ کہی جا سکتی ہے۔ظلم کے لیے لڑی جانے والی جنگ انسانیت کو برباد کر دیتی ہے۔موجودہ دور میں کسی بھی ریاست کو اپنی سلامتی کے لیے شدید جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جدید اسلحہ اور ایٹمی طاقت کسی بھی ریاست کو منٹوں میں تباہ کر سکتی ہے۔طاقتور ریاستیں بھی بعض اوقات اپنی غلطیوں کی وجہ سےاپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔جاپان جیسا طاقتور ملک بھی ایٹمی حملے کی وجہ سےلمحوں میں ہی اپنی سلامتی برقرار رکھنےمیں ناکام ہو گیا تھا۔طاقتور اور کمزور ریاستوں کی جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوتی بلکہ طاقتور ریاستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کمزور ریاستوں کو بھی اپنےہتھیاروں کو میدان عمل میں لانا پڑتا ہے تب ہی ان کو استحکام ملتا ہے۔
Leave a Reply