( تحریر احسن انصاری)
پاکستان کی معروف شخصیت اور ممتاز اداکار طلعت حسین جنہوں نے نصف سے زائد صدی تک پاکستان اور دوسرے ممالک میں اپنے فن کا لوہا منوایا، 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے انکا تعلق پڑھے لکھے اور روشن خیال گھرانے سے تھا۔ ان کے والد تقسیمِ ہندسے پہلے سرکاری ملازم تھے اور والدہ ریڈیو پر شوقیہ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ طلعت حسین کے علاوہ ان کا ایک اور بھائی بھی تھا۔ یہ خاندان لوگ دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ جب طلعت حسین کی عمر 3 سال تھی تب ان کے والد کی پوسٹنگ راولپنڈی میں ہو گئی تھی۔ خود کراچی کے راستے پاکستان پہنچے تو پتہ چلا کہ والد صاحب کو کراچی میں تعینات کر دیا گیا تھا۔ انہی دنوں کراچی ریڈیو کا آغاز ہوا توان کی والدہ نے وہاں ملازمت کر لی اور آخری دم تک ریڈیو سے وابستہ رہیں۔ ان کی والدہ طلعت حسین کے اس فیلڈ میں آنے کے سخت خلاف تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بیٹا سول سروس میں جائے۔ پھر رشتے داروں کے سمجھانے پر وہ طلعت حسین کو ریڈیو لے کر گئیں۔ ان کا آڈیشن کروایا۔ اس زمانے میں بچوں کے لیے ایک پروگرام ہوا کرتا تھا۔’’اسکول براڈ کاسٹ ‘‘جس میں تعلیمی نصاب پر مبنی ڈرامائی فیچر ہوا کرتے تھے تو طلعت حسین نے والدہ سے اصرار کیا کہ یہ پروگرام کرنے سے مجھے تعلیم میں بہت فائدہ ہو گا۔ اس طرح ریڈیو پر کام شروع کیا۔ داد ملتی گئی، لوگ پسند کرنے لگے۔ پھر انہوں نے سٹوڈیو 9 میں کام شروع کر دیااور ان کی والدہ کوشش کے باوجود ان کو روک نہیں سکیں اور وہ کام کرتے رہے ۔ 1972ء میں ان کی شادی پروفیسر رخشندہ سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوئے ۔ طلعت حسین نے انگلش لٹریچر میں گریجوایشن کیا۔ کیرئر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو ان کے انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا تو اس نے انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا، یہ ان کی زندگی کی پہلی ترقی تھی۔ انھوں نے ایکٹنگ کی تعلیم لندن میں حاصل کی۔ بچپن میں انھیں گائیکی‘ مصور اور کرکٹ کا شوق تھا ۔ طلعت حسین کا 26 مئی 2024ء کو کراچی میں 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ طلعت حسین کا شمار پاکستان کے ان لیجنڈ فنکاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے فن کی تمام اصناف میں کام کیا اور اپنا لوہا منوایا، تلفظ اور تاثرات کے ماہر طلعت حسین پاکستان میں فنون لطیفہ کے چمکتے ستارے تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن انڈسٹری کو اپنی منفرد انداز اداکاری سے دوام بخشا، فلم، ٹی وی، اسٹیج اور ریڈیو پر اپنے فن اداکاری اور صداکاری سے نئے آنے والے اداکاروں کے لیے گہرے نقش چھوڑے جو آج بھی ان کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی ورثہ سے کم نہی۔ طلعت حسین کو شروع سے ہی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا، انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1964 میں ریڈیو پاکستان پر بطور نیوز کاسٹر سے کیا اور پاکستان ٹیلیویژن پر کام کا آغاز 1967 سے کیا۔ طلعت حسین نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت برطانیہ سے حاصل کی، اس کے لیے وہ 1972 سے 1977 تک لندن میں مقیم رہے اور لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے اداکاری کے شعبے میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ انہوں نے لندن چینل فور کی مشہور زمانہ سیریز ’ٹریفک‘ میں لاجواب اداکاری کی۔ اس کے علاوہ طلعت حسین نے بالی ووڈ میں فلم ’سوتن کی بیٹی‘ میں عمدہ پرفارمنس دی۔ اس فلم میں جیتندر اور ریکھا کے مدِمقابل ان کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔ انہوں نے ترکش اور دیگر ممالک کی فلموں میں بھی اداکاری کی۔ان کے مشہور زمانہ ڈراموں میں طارق بن زیاد، بندش، دیس پردیس، ارجمند، کارواں، انا، مہرالنسا، ریاست، درد کا شجر، ڈولی آنٹی کا ڈریم ولا، عید کا جوڑا، فنون لطیفہ، ہوائیں، اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل، درد کا شجر اور کشکول نمایاں ہیں۔
طلعت حسین نے ڈراموں کے ساتھ فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، ان کی مشہور فلموں میں چراغ جلتا رہا، گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، انسان اور آدمی، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح سمیت دیگر شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے طلعت حسین کو انکی بہترین اور نمایاں کارکردگی کے اعتراف پر 1982 میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی جبکہ2021 میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ اسکے علاؤہ انہوں نے پاکستانی فلمی دنیا میں بہترین اداکاری کے صلہ میں کئی نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔ طلعت حسین کو ناوریجیئن فلم ‘امپورٹ ایکپسورٹ‘ میں بہترین معاون اداکار کی کیٹیگری میں سن 2006 میں امانڈا ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس ایوارڈ کو ‘اسکینڈے نیوین آسکر‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
Leave a Reply