Today ePaper
Rahbar e Kisan International

طنزیہ شاعری کا شمّعِ کشتہ : نور اقبال

Articles , Snippets , / Monday, October 13th, 2025

rki.news

بقلم : احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا

تعلیم یافتہ شخص پر یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ دوُر افتادہ اور مشاہیر قلم کے علاوہ اپنے علاقے کے عصری و مذہبی علم داں کے اعتراف میں بھی خامہ فرسائی کو سلسلہ دینا چاہیے۔ بقیدِ حیات افراد کی خدمات ہوں یا رفتگاں کی، ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ
تجھے طاقِ نِسیاں نہ ہم ہونے دیں گے
تجھے نہ کبھی بے خبر سونے دیں گے
شمالی 24پرگنہ کے شہرِ مضافات میں کھرا اور بے لاگ لکھنے والے شاعر و ادیب کی فہرست تیار کی جائے تو پہلا نام نور اقبال کا ہی ہوگا۔ نور اقبال ہمارے مضافات کے اوّلین شاعر ہیں جن کی نثر اور شاعری میں طنز کا پہلو ملتا ہے۔ نور اقبال اگر باقاعدہ طنز کا راہ رو بنتے تو ان کی ایک بھر پور شناخت بنی ہوتی۔ ان کی کئی شعری تخلیقات طنز سے عبارت ہیں۔ انسان ، انسان کم اور اداکار زیادہ نظر آتا ہے۔ سماج کی حقیقی تصویر یہی ہے کہ انسان اپنی عادات و خصائل میں
” اداکار” ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے نور اقبال حقیقی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔
ورنہ ہم کو سرِ بزم کہنے دو یہ
دعوئِ دوستی صرف ایک ڈھونگ ہے
فطرتاً ہم سبھی مردِ گفتار ہیں
ہم اداکار ہیں، ہم اداکار ہیں
“دوستی” کو مرکزی خیال بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ دوستی کا دوسرا نام ” قربانی، ایثار اور اپنا نقصان ہے۔” درج بالا تینوں نکتے دوستی کو قابلِ اعتبار بناتے ہیں۔ کوئی دوست جب کسی بھی قسم کی قربانی اور نقصان اٹھانے کے جذبے سے خالی ہو تو ایسی دوستی و مراسم ہی
” اداکاری ” کے لبادے میں باہمی ربط و دوستی کو ناقابلِ اعتبار بناتے ہیں۔ ممکن ہے نور اقبال کو دوستی کا تلخ تجربہ ہوا ہو، اس لیے انہوں نے دوستی کے دعوے کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے اپنی بیزاری اور سرگشتگی کا اظہار کیا ہے۔
نور اقبال کی نگاہیں معاشرے کے چپّے چپّے پر ہونے کے سبب سماج کے مختلف موضوعات کو مشقِ سخن بناتی تھیں۔ روز مرّوں کے مسائل و مصائب کو وسیلۀ اظہار بنا کر ہی اہک قلم کار فنکار کی حیثیت سے محبوبیّت حاصل کرتا ہے۔ صداقت نگاری نے نور اقبال کی سخن گستری کو اس لیے معتبریت سے ہم آہنگ کردیا ہے کہ ان کاقول و فعل قیل و قال سے بے نیاز اور حقیقت سے دست و گریباں نظر آتا ہے۔ دوستی کے کینوس کو بڑا کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ مرد کی دوستی صنف کرخت کی بجائے صنف نازک سے ہوتو دوستی مزید ابتلا میں مبتلا نظر آتی ہے۔ یہاں اگر دامنِ ہوش و ہواس انسانیت کے حصار میں نہیں رہا تو دوستی تارتار ہوکر داغدار ہوجاتی ہے۔ مخلوط تہذیب کے سبب فی زمانہ صنف نازک کو صنفِ کرخت کا خاص تقرّب حاصل ہے۔ یہاں بھی
” دوستی”بطور ِ اداکار جلوہ گر ہوئی ہے اور دونوں کی دوستی کے روز افزوں ابتذال آمیز رویوّں سے دست و گریباں دیکھ کر آنکھیں زمین سے لگ جاتی ہیں۔ نور اقبال حیات سے ہوتے تو ” ایسی شرمناک دوستی و رفاقت” ان کی طنز کا شکار ضرور ہوتی۔ اہلِ نظر
نوراقبال کی نظم” کرسی کی فریاد” کو شاہکار ہونے کی سند عطا کر سکتے ہیں۔ پسندیدگی کو ہمیشگی حاصل ہوگی، اگر ناقدین و مبصّرین نے عدل پروری کا ثبوت دیا۔ زیر نظر نظم کل سے آج تک کی منہ بولتی تصویر ہے ۔دینا کا منظر نامہ یہ انکشاف کرنے پر حق بجانب ہے کہ قیامت تک ہمیں یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ الم ناک و عبرت ناک مناظر سننے و دیکھنے کو ملیں گے۔
نظم “کرسی کی فریاد” ملاحظہ کیجیے۔
پارلیمنٹ کی
کرسی کرسی
چیخ رہی ہے
ہم کو جنگل میں پہنچا دو
پھر سے ہم کو پیڑ بنادو
راہ بروں کی اس محفل سے
راہ زنوں کی محفل اچھی
انسانوں کی صحبت سے
حیوانوں کی صحبت بہتر
ایوانوں کے اندھیاروں سے
جنگل کا ماحول ہے روشن
دلی شہر کے اس تھیٹر میں
دم اپنا گھُٹتا رہتا ہے
ہم کو جنگل میں پہنچادو
پھر سے ہم کو پیڑ بنادو
” کرسی کی حصولیابی” ہمہ گیر موضوع ہے۔ اقتدار کی کرسی ازل سے خون آگیں و عبرت آگیں داستانِ خونچکاں سے عبارت ہے اور رہتی دنیا تک افتراق و انتشار کے قصے وابستہ ہوں گے۔ معمولی ادارے سے غیر معمولی ادارے تک
نور اقبال کی
” کرسی کی فریاد ” کی فنکاری صدائے بازگشت بن کر
داد و تحسین وصول کر رہی ہے اور تاقیامت کرتی رہے گی۔
نور اقبال نے اپنی نظم ” اعزاز” کے توسط سے بھی طنز کو ہتھیار بنایا ہے۔ ” اعزاز” کی بعض سعادت والوں کو “ہم” میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔ بعض اعزاز یافتہ کی آنکھوں پر چربی چھا جاتی ہے اور خود کو ساتواں عجوبہ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ اشارہ زیر نظر نظم میں ملاحظہ کیجیے۔
سرِمحفل اسے اعزاز بخشا جارہا ہے
دماغ اس شخص کا ہے آسماں پر
عجب نافہم ہے وہ سمجھتا ہی نہیں ہے
کہ اس نے جو کیا ہے
کہ اس کو جو ملا ہے
عجوبہ تو نہیں ہے
کہ اس سے قبل بھی تو اس جہاں میں
ہزاروں آدمی کو
یہ منصب ، یہ بلندی اور یہ عزّت مل چکی ہے
وہ اوّل تو نہیں ہے
وہ آخر تو نہیں ہے
تو کیوں وہ اس قدر اترا رہا ہے
سرِ محفل جسے اعزاز بخشا جارہا ہے
نور اقبال کی تمام تخلیقات دستیاب ہوتیں تو مکمل طور پر طنز نگار قلم کار کا سہرا اُن کے سر باندھ دیا جاتا۔
طنز و مزاح کے نثر نگار ہمارے یہاں قیوم بدر تھے۔ اس طرح نثر اور نظم ، دونوں صنف کے قلم کار ہمارے شہرِ مضافات کے تھے۔
1951 میں دنیائے رنگ و بوُ میں قدم رنجہ فرمانے والے نوراقبال اپنی طبیعت کے برخلاف ماحول و سماج سے برگشتہ معلوم پڑتے تھے۔ ایک روز ایک ڈاکٹر کے مطب میں ان کو دیکھا۔ آگے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے مصافحہ کیا۔ مضمحل صورت دیکھ کر سمجھ گیا کہ زیادہ علیل ہیں۔ طبیعت کی بابت پوچھا تو ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ اب اللہ تعالیٰ اوپر سے لفٹ
لٹکائیں گے تو سوار ہوکر چلے جانا ہے۔ کچھ روز کے بعد ہی نور بھائی کی رحلت کی اطلاع ملی ۔
نور اقبال صاحب اگر مزید عمر پاتے تو طنزیہ شاعری کے حوالے سے وہ مزید اعتبار کا حامل ہوتے۔ فی زمانہ طنزیہ و مزاحیہ شاعر و نثر نگار سے ہمارا شہرِ مضافات خالی ہے۔ کج روی پر قلم اُٹھانے والے نہ ہوں تو ہمارا ادب بے سمتی کا شکار ہوجاتا ہے۔ نور اقبال اغلاط کی اصلاح کی بجائے معاشرے میں راہ پانے والے اعمال ، بدعنوانی حکومت کی غلط پالیسیوں، انسانوں میں در آنے والی بے ایمانی، نا انصافی ، مبتذل اخلاق کو موضوعِ سخن بناتے تھے۔ قلم کاروں کی کمی نہیں ہے، لیکن اصلاح کی نیّت سے لکھنے والے کا تذکرہ چھڑتا ہے تو نور اقبال کی کمی کا احساس شدّت سے ہوتا ہے۔ اللہ ان کو حصارِ رحمت میں رکھے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International