Today ePaper
Rahbar e Kisan International

عالمی یومِ اساتذہ اور استاد کی عظمت

Articles , Snippets , / Sunday, October 5th, 2025

rki.news

استاد — غلامی کے اندھیروں میں چراغ، اور ذہنی غلامی کے خلاف فکری جہاد کا علمبردار

تحریر: طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو
03132009181

دنیا بھر میں ہر سال 5 اکتوبر کو ’’عالمی یومِ اساتذہ‘‘ (World Teachers’ Day) منایا جاتا ہے۔ یہ دن محض ایک رسمی یادگار نہیں بلکہ اس احساس کی تجدید ہے کہ انسان جس بھی بلندی پر فائز ہے، اس کی پشت پر استاد کی محنت، قربانی اور رہنمائی کارفرما ہے۔ اگر زندگی کو ایک سفر مانا جائے تو استاد اس سفر کا رہنما ہے؛ وہ چراغ جو اندھیروں میں روشنی دیتا ہے اور وہ رہبر جو منزل کا پتہ دکھاتا ہے۔

> “میرے والدین نے مجھے زمین پر اتارا، مگر میرے استاد نے مجھے آسمان تک پہنچا دیا۔”

یہ جملہ استاد کی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ والدین ہمیں دنیا میں لاتے ہیں، مگر استاد ہمیں دنیا میں جینے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کا ہنر سکھاتا ہے۔

اسلام میں استاد کا مقام

اسلام نے استاد کو بے مثال عظمت عطا کی ہے۔ خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا”
یعنی ’’مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
پہلی وحی “اِقْرَأْ” کے حکم سے شروع ہوئی — جو اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام کا پہلا پیغام ہی علم اور تعلیم ہے۔

حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
“جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، وہ میرا استاد ہے، اب چاہے وہ مجھے آزاد کرے یا غلام بنا لے۔”
استاد محض علم کا ذریعہ نہیں بلکہ روحانی روشنی، فکری رہنمائی اور اخلاقی تعمیر کا محور ہے۔ اسلام نے استاد کو والدین کے مساوی بلکہ بعض اوقات ان سے بھی برتر مقام دیا، کیونکہ والدین جسم کی پرورش کرتے ہیں اور استاد عقل و روح کی۔

غلامی کے دور میں استاد کا کردار

غلامی کے ادوار میں جب قوموں کے ہاتھوں سے آزادی چھن گئی، جب زبانیں خاموش کر دی گئیں اور قلم ٹوٹ گئے، تب استاد ہی وہ چراغ تھا جو اندھیروں میں جلتا رہا۔ غلامی کے عہد میں استاد نے محض تعلیم نہیں دی بلکہ آزادی، خودداری اور مزاحمت کا شعور پیدا کیا۔

مدارس اور درسگاہیں اس وقت علم و حریت کے قلعے بن گئیں، جہاں نصاب کے ساتھ ساتھ غیرتِ ملی، خودشناسی اور ایمان کی تربیت دی جاتی تھی۔ استعماری قوتیں چاہتی تھیں کہ قومیں سوچنے سے محروم ہو جائیں، مگر استاد نے یہ درس دیا کہ علم غلامی نہیں بلکہ آزادی کا ہتھیار ہے۔

> “تم میرے ہاتھ باندھ سکتے ہو، مگر میرے شاگرد کے ذہن کو قید نہیں کر سکتے۔”
یہ وہ سوچ تھی جس نے غلام قوموں میں بیداری اور خوداعتمادی کی شمعیں روشن کیں۔

جدید دور اور ذہنی غلامی

آج جسمانی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں، مگر ذہنی غلامی کی دیواریں قائم ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اب بھی نوآبادیاتی دور کی باقیات لیے ہوئے ہے — ایسا نظام جو تخلیقی اذہان نہیں، حکم بجا لانے والے ہاتھ پیدا کر رہا ہے۔

یہ نظام کلرک تو بنا سکتا ہے مگر مفکر نہیں، ڈگریاں تو دیتا ہے مگر بصیرت نہیں۔ تعلیم اگر صرف ملازمت کا ذریعہ بن جائے تو ذہن غلام رہتا ہے، چاہے جسم آزاد کیوں نہ ہو۔

آج کے استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نصاب سے آگے دیکھے، شاگردوں میں سوال کرنے، سوچنے اور تحقیق کرنے کی جرات پیدا کرے۔

> “تعلیم کا مقصد نوکری نہیں، بیداری ہے۔ علم کا ہدف اطاعت نہیں، آزادی ہے۔”
استاد اگر یہ کردار ادا کرے تو ذہنی غلامی کی زنجیریں خود بخود ٹوٹ جائیں گی۔

یومِ اساتذہ کی اصل روح

یومِ اساتذہ کی اصل روح محض تقاریر یا تصویری تقاریب نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ استاد قوم کا فکری رہنما ہے۔ غلامی کے دور میں جس طرح استاد نے فکری آزادی کی شمع روشن رکھی، آج بھی اسی کردار کی ضرورت ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ آج دشمن تلوار سے نہیں بلکہ نظریات، میڈیا اور نظام کے ذریعے غلامی مسلط کرتا ہے۔

لہٰذا اس دن کی حقیقی معنویت یہ ہے کہ:

استاد کو قومی پالیسی میں مرکزی حیثیت دی جائے۔

اس کی معاشی، سماجی اور فکری عزت بحال کی جائے۔

اور اسے وہ مقام دیا جائے جو قوموں کی بقا کا ضامن ہے۔

استاد کی مظلوم حیثیت

ہمارے معاشرے میں استاد کا مقام زبان پر تو بلند ہے، مگر عمل میں انتہائی مظلوم۔ “قوم کا معمار” کہلانے والا یہ طبقہ قلیل تنخواہوں، ناکافی سہولتوں اور عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ اس کی رائے کو پالیسی سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔

ایک ایسا معاشرہ جو اپنے استاد کو محروم رکھے، وہ اپنے مستقبل کو خود کمزور کرتا ہے۔ استاد کی مظلومیت دراصل پوری قوم کی فکری پسماندگی کا ثبوت ہے۔

استاد کے بغیر معاشرہ

جس معاشرے میں استاد کی قدر نہیں ہوتی وہاں جہالت پروان چڑھتی ہے، نوجوان بے سمت ہو جاتے ہیں اور ترقی خواب بن جاتی ہے۔ استاد وہ ستون ہے جو قوم کی فکری عمارت کو سہارا دیتا ہے، اور جب یہ ستون کمزور ہو جائے تو پوری عمارت لرزنے لگتی ہے۔

اختتامی پیغام — ایک نیا عہد

آج کا معاشرہ محض تبدیلی نہیں بلکہ فکری انقلاب کا تقاضا کر رہا ہے۔ ہمیں ایسا نظامِ تعلیم درکار ہے جو سوچنے والے، سوال اٹھانے والے اور تعمیرِ ملت کے قابل انسان پیدا کرے۔ اور یہ انقلاب اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو اس کا اصل مقام دیا جائے۔

استاد کی عظمت نعرہ نہیں، قوم کی بقا کا وعدہ ہے۔
آئیے، اس یومِ اساتذہ پر یہ عہد کریں کہ ہم استاد کو لفظوں سے نہیں، عمل سے عزت دیں گے۔ تعلیم کو ملازمت نہیں بلکہ آزادی کی کنجی بنائیں گے، اور استاد کو نظام کا تابع نہیں بلکہ قوم کا قائد تسلیم کریں گے۔

> “اگر ہم نے استاد کو پہچان لیا تو یقین کیجیے، ہم صرف نصاب نہیں، تاریخ بدل دیں گے۔”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International